بھارت کو محدود عسکری کارروائیوں پر انحصار کے بجائے، علاقائی توازن کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک واضح روڈ میپ تشکیل دینا ہوگا— ڈاکٹر نسیم بلوچ

ڈاکٹر نسیم بلوچ

بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چئیرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے حالیہ بھارت پاکستان کشیدگی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ تنازع محض دو ریاستوں کا باہمی جھگڑا نہیں بلکہ تقسیم ہند کے اُس تاریخی سانحے کا تسلسل ہے جس کا خمیازہ آج بھی بلوچستان سمیت پورا خطہ بھگت رہا ہے۔ تقسیم ہند نے خطے کی قدیمی ریاستوں، اقوام اور دیرپا امن و استحکام کے امکانات کو ہمیشہ کے لیے تہہ و بالا کر دیا۔ اس کے نتیجے میں اس خطے میں کہیں گرم تو کہیں سرد جنگ کے بادل مستقل طور پر منڈلاتے رہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر کیے گئے محدود اور مبہم حملوں، جنگ بندی کے اعلانات اور فتح و شکست کے شور میں جو سب سے اہم بات نظرانداز ہو رہی ہے، وہ یہ ہے کہ بلوچ، پشتون، سندھی اور کشمیری اقوام نے اس جنگ پر واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ پاکستانی پنجابی اسٹبلشمنٹ اور ہندوستانی ریاست کے درمیان ہے اور مقبوضہ اقوام اس سے لاتعلق ہیں۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا اگر بھارت واقعی خطے میں پائیدار امن، پائیدار ترقی اور پاکستانی دہشت گردی کے مستقل خاتمے کا خواہاں ہے تو اُسے صرف محدود عسکری کارروائیوں پر انحصار کرنے کی بجائے خطے کی بنیادی سیاسی حرکیات، مقبوضہ اقوام کی حیثیت اور علاقائی توازن کے پیش نظر واضح روڑ میپ تشکیل دینا ہوگا۔ ٹھوس اور واضح سیاسی عسکری تجزیے کے بغیر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان جیسے نظریاتی شدت پسند ریاست کو صرف محدود حملوں سے کمزور نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ ماؤنٹ بیٹن منصوبہ ایک ایسا خنجر ہے جو آج بھی برصغیر کے سینے میں پیوست ہے، اور اس سے مسلسل خون رس رہا ہے۔ جب تک اس تاریخی جبر اور غلطی کو تسلیم نہیں کیا جاتا، موجودہ حالات کا درست تجزیہ اور تدارک ممکن نہیں۔ پاکستان ایک غیر فطری ریاست ہے، جو قدیمی اقوام کی سرزمینوں پر نفرت انگیز نظریے اور سامراجی منصوبے کے تحت قائم کی گئی۔ ایک ریاست، ریاست کے جملہ وسائل مع ایٹمی ہتھیار ایک شدت پسند فوج کے زیرِ تصرف ہے، جو صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پورے خطے اور عالمی امن کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پہلگام میں پاکستانی ریاست کی پشت پناہی سے ہونے والا دہشت گردانہ حملہ، جس میں معصوموں کا قتل عام ہوا، اس پالیسی کا تسلسل ہے جس میں دہشت گردی پاکستان کی داخلی و خارجی حکمتِ عملی کا مرکزی ستون ہے۔ یہ ریاست دہشت گردی کی منظم نرسری ہے اور اس دہشت گردی کو ریاستی سطح پر مالی، نظریاتی اور عسکری سرپرستی حاصل ہے۔ یہاں تک کہ جب عالمی دہشت گرد مولانا مسعود اظہر کے قریبی ساتھیوں کی ہلاکت جیسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں، تب بھی پاکستان کی فوجی قیادت دن کی روشنی میں ان کے جنازوں میں شریک ہو کر اعلانیہ یہ پیغام دیتی ہے کہ ریاستی دہشت گردی کا یہ سفر رکنے والا نہیں۔

بی این ایم چئیرمین نے کہا کہ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے، امن و استحکام، اور پائیدار ترقی کا کوئی راستہ اُس وقت تک قابلِ عمل نہیں ہو سکتا جب تک 14 اگست 1947 کی تاریخی سیاسی غلطیوں کا اعتراف، غیر فطری ریاست کے ساختیاتی تضادات کا سنجیدہ تجزیہ کرکے خطے کی مقبوضہ اقوام، بالخصوص بلوچستان کی تاریخی حیثیت، قومی شناخت، اور آزادی کی جدوجہد کو اعلانیہ طور پر تسلیم نہ کیا جائے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جو اس خطے کو مستقل جنگ، دہشت گردی، اور عدم استحکام سے نکال کر ایک پُرامن، متوازن اور ترقی یافتہ مستقبل کی جانب لے جا سکتا ہے۔

Share This Article