پاکستان کے آئینی ڈھانچے کے اندر مظلوم قومیتوں کی بقا ممکن نہیں ۔ محسن داوڑ ، ساتویں بلوچستان کانفرنس سے خطاب

خارجہ ڈیپارٹمنٹ

محسن داوڑ نے کہا بلوچ، پشتون، سندھی اور دیگر مظلوم قومیتوں کی بقا پاکستان کے موجودہ آئینی اور وفاقی ڈھانچے کے اندر ممکن نہیں۔ آئین ایک صوبے کو غیر متناسب طاقت دیتا ہے، جس سے پنجاب کی بالادستی ممکن ہوتی ہے اور باقی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ بگڑا ہوا ڈھانچہ ہمارے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت نہیں دے سکتا۔

محسن داوڑ ، پاکستانی پارلیمنٹ کے ممبر اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ ( این ڈی ایم ) کے صدر ہیں ، انھوں نے ان خیالات کا اظہار جنیوا میں بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے زیر اہتمام ہونے والے ساتویں بین الاقوامی بلوچستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بلوچستان کے مسائل ، جدوجہد ، سیاسی ، انسانی و معاشی حقوق کا احاطہ کرتے اس کانفرنس میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے افراد نے شرکت کی ، جنھوں نے بلوچ تحریک سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔

محسن داوڑ نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر بات کرتے ہوئے کہا آج جب ہم یہاں جمع ہوئے ہیں، پاکستان میں بلوچ مائیں اور بہنیں گزشتہ 62 دنوں سے احتجاج کر رہی ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر اپنی پارٹی کی قیادت کے ساتھ ان سے ملاقات کی ہے، اور میں جانتا ہوں کہ مسلسل جبر کے باوجود انھوں نے کتنا حوصلہ اور استقامت دکھائی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ میں نے شاذ و نادر ہی پنجاب کے زیرِ اثر مرکزی سیاسی جماعتوں کے کسی رہنما کو ان کے ساتھ کھڑا دیکھا۔

یہ خاموشی پاکستان کی حقیقت اور اس کی حکمران سیاسی جماعتوں کے مظلوم قومیتوں — بلوچ، پشتون اور سندھی — کے ساتھ رویے کو بے نقاب کرتی ہے۔ بار بار یہ جماعتیں اقتدار سے باہر ہوں تو متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہیں، مگر جیسے ہی اقتدار میں آتی ہیں، ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ ان کا اصل مقصد طاقت رہتا ہے، نہ کہ انصاف یا انسانی حقوق۔ ‘‘

انھوں نے کہا 62 دن سے لاپتہ افراد کے خاندان اسلام آباد میں بیٹھے ہیں، ابتدا میں تو انھیں احتجاج کے لیے خیمہ لگانے کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود وہ اپنا پُرامن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میں ان کے حوصلے کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اس فورم سے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت اور تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہوں جنھیں بلاجواز قید میں رکھا گیا ہے۔ ان کی گرفتاریاں اور من گھڑت مقدمات کے تحت بار بار الزامات صرف انھیں خاموش کرانے کی کوششیں ہیں۔

محسن داوڑ نے پاکستان کے عدلیہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا آج پاکستان میں عدلیہ کو انتظامیہ کے ایک بازو میں بدل دیا گیا ہے۔ 26ویں ترمیم نے اس کی آزادی کو مزید کمزور کر دیا ہے، اور اسے پہلے سے محروم قومیتوں پر جبر کا آلہ بنا دیا ہے۔ حقوق کے تحفظ کے بجائے یہ جبر کو آسان بناتی ہے۔ ہم نے یہ بلوچ رہنماؤں، جیسے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، اور دیگر کے ساتھ دیکھا ہے، جو من گھڑت الزامات اور بار بار حراست کا سامنا کر رہے ہیں۔

’’ لاپتہ افراد کا مسئلہ پاکستان کی تاریک ترین حقیقتوں میں سے ایک ہے۔ صرف اس سال جنوری سے جون کے درمیان 725 جبری گمشدگیوں کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ اگر کوئی ہدف زدہ شخص نہ ملے تو اکثر اس کا رشتہ دار اٹھا لیا جاتا ہے — اجتماعی سزا جو پورے خاندانوں کو مجرم بنا دیتی ہے۔ آج بلوچ شناخت کو ہی جرم بنا دیا گیا ہے۔ پنجاب اور دیگر جگہوں کی یونیورسٹیوں سے طلبہ کو صرف بلوچ ہونے کی وجہ سے اغوا کر لیا جاتا ہے۔ بلوچ ہونا ہی شک کی علامت بن گیا ہے۔ ‘‘

انھون نے کہا یہ مجرمانہ پالیسی اور تشدد صرف بلوچستان تک محدود نہیں۔ پشتون علاقوں میں بھی ہم نے یہی پیٹرن دیکھا ہے — ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، اور سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنانے والے ڈیتھ اسکواڈ۔ ریاست نے مذہبی عسکریت پسندی اور طالبان کو پشتون قوم دوستی کو دبانے کے لیے استعمال کیا، جیسے وہ بلوچ شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مقصد ایک ہی ہے: مظلوم قومیتوں کے حقوق چھیننا اور ان کی آوازوں کو خاموش کرنا۔

محسن داوڑ نے کہا آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کیا جائے۔ اس سے کم کچھ بھی ہمارے حقوق کی حفاظت نہیں کرے گا۔ اس کے لیے ہمیں اتحاد درکار ہے — سندھی، پشتون، بلوچ اور دیگر — جو مل کر دباؤ ڈالیں اور ریاست کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کریں۔ ہم مرکزی سیاسی جماعتوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے، جو ہمارے مسائل کو صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سودے بازی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

انھوں نے پاکستان کے نام نہاد مرکزی سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا ہاں، پاکستان کے حکمران کچھ سالوں تک طاقت کے زور پر حکومت کرتے رہ سکتے ہیں، مگر ہماری قومیں ہزاروں سالوں سے اس زمین پر آباد ہیں۔ ہم اس کے جائز مالک ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں گی، مگر جلد یا بدیر ہم اپنی ملکیت، وقار اور حقوق واپس حاصل کریں گے۔

مکمل متن 📜

Share This Article