شہید زبیر بلوچ قومی آزادی کے سپاہی اور بی این ایم کے ممبر تھے ، ڈاکٹر نسیم بلوچ

ڈاکٹر نسیم بلوچ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے نڈر نوجوان رہنما چیئرمین زبیر بلوچ کے پاکستانی فوج کے ہاتھوں قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہید زبیر بلوچ ایک سیاسی کارکن، انسانی حقوق کے وکیل اور بلوچ قومی بقا اور قومی آزادی کے توانا آواز تھے۔ وہ بلوچ طلبہ اور عوامی سیاست میں اپنے اصولی موقف اور جرات مندانہ آواز کی بدولت ہر دلعزیز تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں پارلیمانی نظام کو حقوق کے حصول کے لیے ناکارہ قرار دے کر نظریاتی سیاست کا ساتھ دیا۔ جہاں جہاں بات کرنا ناممکن یا نہایت مشکل تھی ، وہاں بہادر اور جی دار زبیر بلوچ کی آواز گونجتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستان میں تمام مکتبہ فکر کے لوگ ان کی شہادت پر پاکستانی جبر کی مذمت کر رہے ہیں۔

زبیر بلوچ نے وصیت کی تھی کہ ان کے موت کے بعد ، ان کی جہد آزادی سے وابستگی کے بارے میں قوم کو بتایا جائے

انھوں نے کہا زبیر بلوچ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے جس گروپ سے وابستہ تھے وہ ایک پارلیمانی پارٹی ہے۔ روایت رہی ہے کہ اس سیاسی پارٹی کے ذیلی طلبا تنظیم کے ارکان طلبا سیاست سے فارغ ہوکر اسی پارٹی کو جوائن کرتے ہیں اور اسی ڈگر کی سیاست کرتے ہیں۔ لیکن زبیر بلوچ نے اس روایت سے بغاوت کرکے اپنی پارلیمانی پارٹی میں شمولیت کی بجائے بلوچ نیشنل موومنٹ کی قیادت سے رابطہ کیا اور اپنا سیاسی رشتہ ایک نظریاتی پارٹی سے وابستہ کیا اور آخری دم تک اس پر قائم رہے۔ ان کی وصیت تھی کہ طبعی موت یا شہادت کے بعد قوم کو یہ بتایا جائے کہ ’’ زبیر بلوچ قومی آزادی کے ایک سپاہی تھے اور ان کی زندگی کا مقصد بلوچ قومی آزادی اور بلوچ کی خدمت تھی۔‘‘

پارٹی سے وابستگی خفیہ رکھنے کے باوجود وہ اپنے عمل سے فوج کی نظر میں آئے ، اور انھیں قتل کردیا گیا

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا سرفیس کی سیاست میں بی این ایم جیسے آزادی پسند اور انقلابی پارٹی سے اعلانیہ وابستگی پاکستان نے ناممکن حد تک مشکل بنا دیا ہے۔ جونہی کسی ممبر کی شناخت ظاہر ہوئی تو پاکستانی فوج اسے قتل کرنے سے کبھی پس و پیش نہیں کی۔ سیاسی کارکنوں کو قتل کرنا پاکستانی فوج کا وتیرہ ہے۔ زبیر بلوچ نے پارٹی پالیسی کے تحت اپنی شناخت ظاہر نہیں کی لیکن ان کا عمل شناخت مخفی رکھنے کے باوجود عیاں ہوا ، اسے لیے وہ پاکستانی کے ہدف بنے۔ بروز بدھ ، 24 ستمبر ، 2025 کو ان کے گھر پر حملہ کیا گیا اور شدید فائرنگ میں علیٰ اصبح ان کے دوست نثار کے ساتھ انھیں شہید کیا گیا۔ بلوچستان میں آج چادر و چار دیواری کے تقدس جیسے الفاظ وجود نہیں رکھتے۔ پاکستانی فوج جس گھر پر ہلہ بول دیتی ہے، اس کا مطلب اہل خانہ میں سے کسی کو بھی غیر قانونی، غیر انسانی طریقے سے اٹھاکر جبری لاپتہ رکھنا، کسی کو قتل کرنا اور گھروں کو نذر آتش کرنا ہوتا ہے۔ بسا اوقات پاکستانی فوج یہ تینوں جبر ایک ساتھ کرتی ہے۔ زبیر بلوچ کے ساتھ یہی ہوا، انھیں ریاستی فوج نے گھر پر حملہ کرکے قتل کر دیا۔

شہید نثار بلوچ

انھوں نے کہا پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے زبیر بلوچ جیسے باشعور نوجوان اور رہنما ناقابلِ برداشت ہیں کیونکہ انہی جیسے رہنماؤں کی جدوجہد نے پاکستانی فوج اور پاکستانی ریاست کے مظالم کو بلوچ قوم کے سامنے آشکار کیا ہے۔ اس شعور کی آبیاری نے بلوچ قوم اور پاکستانی فوج کے درمیان رشتے واضح کردیے ہیں۔ بلوچ زمین کا وارث ہے اور پاکستانی فوج محض قبضہ گیر کا ایک وسیع ڈیتھ سکواڈ ہے، جس کی ہر شکل، ہر صورت قابل نفرت اور قابل مزاحمت ہے۔

ہمیں فخر ہے کہ شہید زبیر بلوچ نے خاموشی یا مصلحت کے بجائے مزاحمتی سیاست، جدوجہد اور حق گوئی کو اپنا راستہ بنایا۔ وہ پارٹی کے باوقار حصہ اور ہمدرد تھے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ شہید زبیر بلوچ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ہم عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافتی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ زبیر بلوچ جیسے پرامن رہنماؤں کے قتل پر خاموش نہ رہیں بلکہ پاکستانی فوج کو جواب دہ بنائیں۔

Share This Article