شال : بلوچ نیشنل موومنٹ کے شعبہ انسانی حقوق پانک نے اپنی مئی 2023 کی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے سنگین صورتحال کو پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ہے کہ مئی کے دوران پاکستانی فورسز نے 25 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کرکے ہزاروں کی تعداد میں پہلے سے جبری لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کے عقوبت خانوں سے صرف 12 افراد کو رہا کیا گیا ہے۔قید کے دوران انھیں ذہنی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان جببری گمشدگیوں کی وجوہات اور متاثرین پر عائد الزامات کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ جبری گمشدگیوں کے اس تسلسل نے بلوچ عوام کی جسمانی اور ذہنی صحت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پانک نے نجمہ بنت دلسر کی خودکشی کی تحقیقات کی ، پانک کو وائس نوٹس ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج کے ایجنٹ ’نوربخش ولد عبدالخالق‘ نے انھیں بلیک میل کرکے خودکشی پر مجبور کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچ عوام کو ناقابل تصور تکالیف کا سامنا ہے، خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے اور انھیں بطور ریاستی آلہ کار کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا گیا ہے جس سے لوگ ان واقعات پر خاموش ہیں۔
بانک نجمہ بلوچ کا کیس انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تباہ کن نتائج کی ایک مثال کے طور پر نمایاں ہے۔ وہ ایک پڑھی لکھی اور متحرک نوجوان خاتون تھیں جنھوں نے اپنی کمیونٹی میں بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی۔ تاہم، انھوں نے پاکستانی فوج اور اس کے ایجنٹوں کی طرف سے مسلسل ہراساں کیے جانے کی وجہ سے اپنی جان لے لی۔
پانک نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان کے انسانی بحران کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کرتے ہوئے مداخلت کرے۔ پانک بین الاقوامی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں پر زور دیتا ہے کہ وہ پاکستان کو ان جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرائیں اور ان زیادتیوں کو ختم کرنے کے لیے کام کریں۔
رپورٹ میں بتایا کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی کارروائیوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، جن میں فوج کی اجازت کے بغیر رہائشیوں کی نقل و حرکت پر پابندی اور روزانہ کی فوجی کارروائیاں شامل ہیں۔ ہزاروں افراد کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا ہے، جبکہ بہت سے لوگ فوجی جارحیت کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان آرمی نے مختلف علاقوں میں مسلح دستے قائم کیے ہیں، جنھیں ڈیتھ اسکواڈز کے نام سے جانا جاتا ہے، جو جرائم پیشہ افراد کو بھرتی کرتے ہیں اور فوج کی ایماء پر ہراساں کرنے، چوری اور یہاں تک کہ قتل جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
علاوہ ازیں پانک نے اپیل کی ہے کہ انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی ٹیمیں بلوچستان کی صورتحال کی تحقیقات اور انسانی حقوق پر رپورٹ مرتب کرنے کے لیے تعینات جائیں۔
پانک نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی ادارے انسانی حقوق کو فروغ کی کوشش ، متاثرین کی حفاظت، اور انصاف کی وکالت کرنے والی تنظیموں کی مدد کریں۔ادارہ پانک بلوچستان کی صورتحال کی سنگینی کو اجاگر کرتا ہے اور عالمی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرے تا کہ انسانی حقوق کا احترام، تحفظ اور ان کا مکمل نفاذ ہو۔
پانک نے اپنی رپورٹ میں یکساں انسانی حقوق کے ضوابط کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اجتماعی کوششوں اور غیر متزلزل عزم کے ذریعے بامعنی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ کا خلاصہ
ماہ مئی میں انسانی حقوق کی صورتحال کا اجمالی جائزہ
پانک مئی 2023 کی جائزہ رپورٹ
اہم موضوعات
۔ بلوچستان میں خود کشیوں کا بڑھتا رجحان اور وجوہات
۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی صورتحال
- بلوچستان میں خود کشیوں کا بڑھتا رجحان اور وجوہات
بلوچستان میں خو د کشیوں کا بڑھتا رجحان انتہائی گھمبیر صورتحال اختیار کرتا چلا آرہا ہے ، ماہانہ دو سے تین کیسز رپورٹ ہور ہے ہیں لیکن ان واقعات کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ان کیسز کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا چاہیے، ماہ مئی میں بلوچستان کے ضلع آواران کے سب تحصیل گیشکور سے ایک استانی نجمہ بلوچ نامی ایک لڑکی نے خود کشی کی تھی، ادارہ پانک نے اس خودکشی کے واقعے کا مطالعہ کیا، لواحقین سے ملے ،رابطہ کیا اور تمام زاویوں سے اس واقعے کو پرکھا اور دیکھا تب اس نتیجے پر پہنچے کہ اس خود کشی کے پیچھے ریاستی اداروں سے منسلک ایم آئی ایجنٹ اور حاضر سروس لیویز سپاہئ نور بخش ولد عبدالخالق ملوث رہا ہے، باقاعدہ ان کے فون ٹریس کیے گئے ان کے وائس نوٹ جن میں باقاعدگی کے ساتھ تمام ثبوت سامنے آئے جو ایک پروگرام کے تحت بلیک میلنگ اور ہراسمنٹ کرکے استانی نجمہ کو نہ صرف اپنے جسمانی ضرورت کیلئے استعمال کرنا چارہے تھے بلکہ اپنی فوجی مقاصد کیلئے انھیں مخبر جیسی بدترین کردار پر استعمال کرنا چارہے تھے لیکن ان تمام مشکلات اور پیچیدگیوں نے استانی نجمہ کو خود کشی کرنے پر مجبور کیا۔۔ اس واقعے کی پوری تفصیل اور قانونی کاروائی کے تمام مراحل طے کیے گے جن میں تین ملزمان کے خلاف ایف آئی ار مدعیت عبدالغفور درج ہوا جن میں ایک سدیر نامی مجرم پولیس نے گرفتار کیا لیکن مرکزی ملزم نوربخش اور ولی نامی لڑکا تاحال گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔۔۔ اس واقعے سے قبل چند اور کیسز کو ہماری پارٹی نے مطالعہ کیا اور رپورٹ بھی کرتا رہا کہ ان خود کشیوں کے پیچھے ریاستی ادارے ملوث ہیں ۔۔ بلکل اسی طرح استانی نجمہ کا قتل ماورائے عدالت ریاستی قتل ہی تصور ہوگی۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہا تو آگے اس طرح کے واقعات میں مزید ااضافہ ہوگا ۔۔۔
ادارہ پانک انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان جسے سنگین واقعات کی روک تھام میں مرکزی کردار ادا کرکے ہمارے ساتھ تعاون کریں ۔۔ اس واقعات کی ورک تھام میں سماجی شور اور آگاہی مہم میں بین الاقوامی ادارے سامنے آئیں اور ساتھ ہی پاکستانی فورسز کو جوابدہ کیا جائے ۔
- بلوچستان جبری گمشدگیوں کی صورتحال
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کے سب سے بڑے مسئلے کے طور پر نمایاں ہونے کے باوجود بلوچستان میں یہ پاکستانی فوج کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے کہ لوگوں کو ماورائے آئین و قانون گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کرتی ہے،مئی 2023 میں25 افراد کو جبری لاپتہ کیا گیا جبکہ ہزاروں جبری لاپتہ افراد میں صرف12 افراد پاکستانی فوج کے عقوبت خانوں سے رہا کیے گئے جنھیں قید کے دوران زہنی اور جسمانی اذیت دی گئی ہے لیکن کہیں سالوں بلا وجہ اذیت خانوں میں انتہائی تشدد اور عزت نفس مجروح کرنے اور الزامات کی وضاحت کی گئی ہے اور نہ ہی ان کی جبری لاپتہ کرنے کی وجہ بیان کی گئی ہے ؟
ادارہ پانک بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرتی ہے کہ بلوچستان میں روزانہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں نہتے بلوچ لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے روز پریکٹس کے عمل اور بلاوجہ اذیت دینے کے بعد ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کی بحالی کیلئےریاست پاکستان بشمول ان کے فوجی اداروں کو جوابدہ کیا جائے، تاکہ بلوچ قوم کے خلاف دہرائی جانے والی اس اجتماعی سزا کو روکا جاسکیں۔
افسوس کا امر یہ ہے کہ پاکستان میں عالمی امداد اور اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں سے مستفید ہونے والے ہیومین رائٹس کمیشن اف پاکستان اور دیگر اداروں کے مقامی ذمہ داران انسانی حقوق کے اس تشویشناک پہلو پر زیادہ تر خاموش ہیں یا صرف منتخب چند کیسز پر ہی بیانات دیتے ہیں، انھیں بلوچستان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد جبری گمشدگی پر متحرک کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن وہ اس ساری صورتحال میں جابنداری کا کھلم کھلا اظہار کررہے ہیں جو انتہائی مایوس کن اور نفرت انگیز خیالات کو اضافہ کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔