بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی کمیٹی کا تیسرا اجلاس چیئرمین ڈاکٹرنسیم بلوچ کی سربراہی میں منعقدہوا جس میں کابینہ اور سی سی کے تمام ممبران نے شرکت کی۔ ایجنڈے میں پارٹی چیئرمین کاخطاب، ڈسپلن کی خلاف ورزی پر تادیبی کاروائی، خطے و بین الاقوامی سیاسی صورت حال پر بحث،سوشل میڈیا کی اہمیت اور ہماری پالیسی، تنقید، پارٹی امور اور آئندہ لائحہ عمل شامل تھے، جن پر تمام ممبران نے تفصیلی بحث و مباحثہ کیا اور اہم فیصلے کیے گئے۔
مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نے کہا مرکزی کمیٹی قومی کونسل سیشن کے بعد پارٹی کا سب سے بااختیار اور پالیسی ساز ادارہ ہے۔ اس ادارے میں ہم ان موضوعات پر بحث کرتے ہیں جن پر عام سرکل میں بات کرنا ممکن نہیں۔ یہاں بحث و مباحثے کے بعد جو فیصلے ہوتے ہیں وہ پارٹی کے اجتماعی پالیسی بنتے ہیں جن کی پاسداری تمام قیادت سے لے کرکارکنوں پر فرض ہے۔ یہاں ممبران تبادلہ خیال، بحث ومباحثہ سے تحریک کے تقاضوں اور پارٹی پروگرام کی فعالیت کے لیے وقت سے ہم آہنگ نئی پالیسی تیار کرتے ہیں۔ ہماری آج کی وضع کردہ پالیسیاں اور حکمت عملیاں مستقبل میں ہمارے لیے کام کرنے کے طریقہ کار کے لیے آسانیاں پیداکرتے ہیں۔
انہوں نے کہا پارٹی نے گزشتہ سال منعقدہ سیشن میں نئے طریقہ کار وضع کیا۔ پارٹی کے مختلف شعبوں کی بہتر کارکردگی کے لیے مختلف ادارے تشکیل دیئے جو بہتر طریقے سے کام کررہے ہیں۔ جب ہم اپنے اپنے کام اور فرائض منصبی پر توجہ مرکوزکرتے ہیں تو بلاوجہ اورغیرضروری مباحث کا حصہ نہیں بنتے ہیں۔ جب بھی اپنے کام سے توجہ ہٹتا ہے تو غیرضروری موضوعات پر نہ صرف اپنی توانائیاں ضائع کرتے ہیں بلکہ اس سے آزاد خیالی جنم لیتی ہے اور پارٹی کے ساکھ کو نقصان پہنچانے کا وجہ بھی بنتے ہیں۔ لہٰذا تمام کارکن، کیڈر اور لیڈرشپ کو اپنی اپنی کارکردگی پر توجہ دینا چاہیے۔
انہوں نے بلوچستان کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ظلم و جبر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچ محفوظ نہیں ہیں۔ بلوچ اپنی تاریخ کے بدترین نسل کشی اور اجتماعی سزا سے دوچار ہیں۔ اس ظلم و جبر کو نمایاں کرنے میں پانک اور زرمبش اہم کردار ادا کررہے ہیں اور سفارت کاری کے میدان میں بھی ساتھیوں نے بہتر کارکردگی کامظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا، دشمن بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لیے کثیرالجہتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ دشمن کوشش کررہا ہے کہ بلوچ نیشنلزم کے واضح نظریے اور بلوچ قومی اقدار کو مسلسل پروپیگنڈہ اور اپنی درآمدی نظریات سے آلودہ کیا جائے کیونکہ بلوچ نیشلزم کے نظریے نے بلوچ قوم کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے ماضی میں بھی کوششیں کی ہیں اور آج مزید تیزی سے کام کر رہاہے۔ اس میں ایک مذہب کا استعمال ہے، جہاں بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹرکرنے کے لیے پاکستان جامع منصوبہ بندی سے بلوچستان میں اسلام کا اپنا ورژن تھوپ رہا ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق تو نہیں لیکن مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات سے آسانی سے کھیلا جاسکتاہے۔
چیئرمین نے کہا بلوچ نیشلزم اتنی توانا اور طاقتور ہے کہ اس نظریے نے پاکستان کے تمام تر درآمدی نظریات اور پاکستانی ورژن کے مذہب کو مسترد کیا ہے۔ بلوچ ان لوگوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو پاکستانی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کی مثال ہمارے سامنے ہے جب پنجاب میں ایک سری لنکن مہمان پر توہین کا جعلی الزام لگا تو بھیڑ نے درندوں سے بدتر طریقہ اپنا کر اس شخص کو زندہ جلادیا۔ لیکن بلوچستان میں شہید عبدالرؤف پر اسی طرح کا الزام لگایا گیا تو بلوچ قوم کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ جب پاکستانی ملاؤں کے ڈیتھ سکواڈ نے عبدالرؤف کو قتل کردیا تو عوام نے بڑے پیمانے سے شدید احتجاج کرکے ثابت کردیا کہ یہاں پاکستان کے مسلط کردہ نظریات کے لیے کوئی جگہ نہیں بلکہ بلوچ اپنے قومی اقدار اور اسلام کے اصل روح پر عمل پیرا قوم کے تاریخ کا مالک ہے۔ اس سے ہمیں مطمئن نہیں ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان کی جانب سے مسلسل کوشش ہورہی ہے۔ لہٰذا اسے کاؤنٹرکرنے لیے اپنے لوگوں تک نیشنلزم کے نظریے اور آزادی کے تقاضوں کے لیے انقلابی تعلیمات پہنچانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے سیاسی صورت حال بات کرتے ہوئے کہا بلوچ تحریک ہمیشہ نشیب وفراز سے دوچار رہا ہے لیکن گزشتہ بیس سالوں سے تحریک میں ایک تنظیم اور ضبط ہے اورمسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ آج پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہے۔ پاکستان کے اندرونی تضادات واضح طور پر ابھر رہے ہیں۔ پاکستان سیاسی، معاشی، عدالتی اور آئینی بحران سے دوچار ہے۔ اس کے ساتھ فوج بھی اندرونی طور پر تقسیم ہے جس کے مختلف دھڑے مختلف پارٹیوں کے ذریعے پاکستان پر حکومت کرنے کے لیے تجربہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے پاکستان بحیثیت ریاست اپنی سمت کھو چکا ہے۔ یہ انتشاری صورت حال بلوچ سمیت تمام محکوموں کے لیے مواقع پیدا کر رہا ہے۔ اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان حالات سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بلوچ قومی تحریک کو کچلنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس لیے گذشتہ بیس سالوں سے دشمن یکے بعد دیگرے مختلف طریقہ کار اورحکمت عملی اپنا رہا ہے۔ اس کا مطلب عیاں ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو ختم کرنے اور بلوچ قوم کو آزادی کے موقف سے دستبردار کرنے کے لیے دشمن کی حکمت عملیاں مسلسل ناکام ہو رہی ہیں۔ جب دشمن باربارحکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور جائے تو یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کوئی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہو رہی اور مدمقابل بہتر پوزیشن میں ہے۔ یہ بہتر پوزیشن ہمیں ہماری تاریخ، تحریک میں پارٹی اور تنظیموں کا کردار اور بلوچ قوم کی انمول قربانیاں عطا کرتی ہیں۔
چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بلوچ کے پاس سوشل میڈیا کے علاوہ ابلاغ کا دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ جہاں سوشل میڈیا کے بے شمار فائدے ہیں اور اس میڈیم کے ذریعے ہم اپنی بات اپنی لوگوں اور دنیا تک پہنچا سکتے ہیں وہاں اس کے منفی استعمال سے بے شمار نقصان بھی ہیں۔ اس کا ماضی قریب میں بہت زیادہ تجربہ ہوچکاہے لیکن آج کل میں دیکھ رہاہوں کہ سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی ایک نئی لہر سامنے آ رہی ہے۔ جہاں تک ذمہ داروں، تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرز کی بات ہے، ہم نے انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیاہے۔ جب ہم دوسری تنظیموں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں وہاں ہم پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو فروغ دی ۔ ایک ذمہ دار پارٹی کی حیثیت سے ہم اپنی توانائیاں ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ایک بڑی دشمن کا سامنا ہے اور ہم ایک عظیم مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جب مقصد عظیم ہو تو اسے پانے کے لیے سیاسی پختگی ، شعوری بالیدگی اور مثبت خیالات کی ترویج کے لیے انتھک محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عظیم مقصد کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ہمارے پیارے لوگ قربان ہورہے ہیں، زندانوں میں اذیتیں کاٹ رہے ہیں تو ہمیں ان قربانیوں کا ترجمانی سطحی اور غیرسنجیدہ نہیں بلکہ مکمل پختہ سیاسی شعور اور مہذب انداز سے کرنا چاہیے۔ تحریک سے منسلک تمام فریقین کو ادراک ہوناچاہیے کہ صرف سیاسی پختگی ، شعوری بالیدگی اورمہذب اندازِ بیان سے ہم عالمی دنیا کے سامنے اپنا قومی مقدمہ لڑسکتے ہیں۔
مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے جنہیں سرکولر کے ذریعے کارکنوں کو پہنچایا جائے گا۔