بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم کی جانب سے نیدرلینڈز کے مختلف شہروں میں بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، جبری گمشدگیوں اور ریاستی تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور تصویری نمائش کا انعقاد کیا گیا۔ اس کمپئن کا بنیادی مقصد عالمی برادری کی توجہ بلوچستان میں جاری مظالم اور انسانی بحران کی جانب مبذول کرانا تھا۔
مظاہرے میں مقامی انسانی حقوق کے کارکنان، صحافیوں اور دیگر سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور قابض پاکستانی فورسز کی جارحیت کے خلاف نعرے درج تھے۔
اس مہم کے تحت 3 مئی کو اتریخت سینٹرال ، 10 مئی کو آرنہم اور 11 مئی کو ماستریخت میں پمفلٹ تقسیم کیے گئے۔
نمائش میں پیش کی گئیں تصاویر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جبری لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ، اور زمینی حقائق کی عکاسی کرتی تھیں۔ ان تصاویر کا مقصد بلوچ قومی تاریخ، وسائل کی لوٹ مار، اور بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔
احتجاجی مظاہرے سے بلوچ نیشنل موومنٹ نیدرلینڈز چیپٹر کے صدر مہیم عبدالرحیم، واحد بلوچ، ڈاکٹر لطیف بلوچ، باسط ظہیر اور براھگ بلوچ نے خطاب کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرہ ایک علامتی احتجاج ہے، جس کے ذریعے ہم عالمی ضمیر کو جھنجوڑنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران پاکستانی فورسز نے چالیس سے زائد جبری لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا، جبکہ سینکڑوں کو اغوا کر کے جبری گمشدہ کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو، گل زادی، شاہ جی اور بیبگر بلوچ پر ہدہ جیل میں بدترین تشدد کیا جا رہا ہے۔ ہم اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے مظالم کا فوری نوٹس لیں۔
تقریب کے اختتام پر مظاہرین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بحالی، جبری گمشدگیوں کا خاتمہ، اور متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔