اپنی جدوجہد آزادی کا اعلان کریں، بلوچ اور سندھیوں کے ساتھ ہاتھ ملائیں – بلوچ رہنما کا جنیوا میں پشتونوں سے خطاب

ہم کب تک ایسے نظام کا حصہ بنے رہیں گے جو ہمیں کچلنے کے لیے بنایا گیا ہے؟

ڈاکٹر نسیم بلوچ

جنیوا: بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے جنیوا پریس کلب میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مظلوم اقوام کے اتحاد پر زور دیا۔ پشتون قیادت کو فیصلہ کن اقدام اٹھانے کی تلقین کرتے ہوئے انھوں نے کہا انتظار کا وقت ختم ہو چکا ہے ، اب آزادی کا وقت ہے۔ پشتون بھائیو، مزید انتظار نہ کریں۔ اپنی آزادی کی جدوجہد کا اعلان کریں۔ اپنے بلوچ اور سندھی بھائیوں کے ساتھ ہاتھ ملائیں، کیونکہ ہماری جنگ الگ نہیں —بلکہ ہم ایک ہی ظالم کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

انھوں نے پشتون اور سندھی عوام پر ہونے والے منظم جبر کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہم کب تک اس ریاست سے حقوق کی بھیک مانگتے رہیں گے جو ہمیں اپنا دشمن سمجھتی ہے؟ ہم کب تک ایسے نظام کا حصہ بنے رہیں گے جو ہمیں کچلنے کے لیے بنایا گیا ہے؟

انھوں نے پاکستان کی مظلوم اقوام کی مشترکہ طاقت سے خوفزدہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا وہ چاہتے ہیں کہ ہم تقسیم رہیں کیونکہ اگر ہم متحد ہو گئے تو ان کے جبر کا نظام بکھر جائے گا۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب بلوچ اور پشتون قدم سے قدم ملا کر چلیں گے۔ وہ اس دن سے خوفزدہ ہیں جب سندھی اور ہزارہ ہمارے ساتھ مل کر انصاف کا مطالبہ کریں گے۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب ہم حقوق کی مانگ کر اپنی آزادی واپس حاصل کرنے کی بات کریں گے۔ اگر ہم تقسیم رہے تو غلام رہیں گے، لیکن اگر ہم متحد ہو گئے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں روک نہیں سکے گی۔

پاکستان کی تاریخی دھوکا بازیوں پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا پاکستان نے کبھی بلوچ، پشتون یا سندھی پر بھروسہ نہیں کیا اور نہ کبھی کرے گا۔ ہم نے ہر راستہ آزمایا—انتخابات، اسمبلیاں، عدالتیں—لیکن ہر بار ہمیں دھوکہ، گولی اور خونریزی کے سوا کچھ نہیں ملا۔

چیئرمین بی این ایم نے پاکستانی ریاست کو مظلوم اقوام کے خلاف نسل کشی کی پالیسی اختیار کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا پاکستان نے ہم سب کے خلاف ایک ہی طریقہ استعمال کیا ہے—قتل، اغوا، خاموش کرانا، تقسیم کرنا۔ لیکن آج، جنیوا میں ہم اکٹھے کھڑے ہو کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان کا منصوبہ ناکام ہو چکا ہے۔

ریاستی جبر کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انھوں نے کہا آج میں ایک فرد کی حیثیت سے نہیں بلکہ ہر اس بلوچ ماں کی آواز کے طور پر بات کر رہا ہوں جو اپنے لاپتہ بیٹے کو تلاش کر رہی ہے، ہر اس پشتون باپ کی آواز کے طور پر جو اپنے قتل کیے گئے بچے کا سوگ منا رہا ہے، اور ہر اس سندھی خاندان کی آواز کے طور پر جو اپنے پیاروں کی واپسی کا منتظر ہے ، میں مزاحمت کی پکار ہوں۔
انھوں نے بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا بلوچستان صرف فوجی قبضے کا شکار نہیں ہے بلکہ معاشی استحصال کا بھی شکار ہے۔ ہمارا سونا، تانبہ، گیس اور دیگر وسائل لوٹے جا رہے ہیں، جبکہ ہماری قوم کو غربت، بھوک اور بیماری میں مبتلا رکھا گیا ہے۔ ریاست بلوچستان کو ایک نوآبادیاتی جائیداد کے طور پر دیکھتی ہے، ایک ایسی زمین جسے صرف لوٹا جائے لیکن وہاں بسنے والوں کو کبھی عزت نہ دی جائے۔

بین الاقوامی برادری کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا بین الاقوامی برادری انسانی حقوق کی بات کرتی ہے لیکن پاکستان کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد بھیجتی ہے—ایک ایسی فوج کے لیے جو ان فنڈز کو بلوچ اور پشتون بچوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ کسی نے پاکستان کو 1971 میں بنگالی نسل کشی پر جوابدہ نہیں ٹھہرایا، اور آج وہ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں جاری نسل کشی کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ہمیں کوئی رعایت نہیں چاہیے—ہمیں برابری چاہیے۔ ہمیں کوئی احسان نہیں چاہیے—ہمیں اپنے حقوق چاہیے۔ ہمیں دوسروں پر حکمرانی نہیں کرنی—ہمیں اپنے اوپر حکمرانی کرنی ہے۔

Share This Article