بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کی ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے رکن چیف اسلم نے کہا شہید علی شیر کرد قومی تحریک میں تنظیم کی اہمیت کو ماننے والے تھے اور آپ نے کوشش کی کہ جدوجہد کے ہر شعبے کو آگے بڑھانے کے لیے عوام کو آگاہی دیں اور اپنا حامی بنائے۔
اس نشست کا اہتمام شہید علی شیر کی شہادت کی چودھویں برسی کے سلسلے میں بی این ایم شہید راشد مشکے آواران زون کی طرف سے کیا گیا تھا۔
چیف اسلم نے شھید علی شیر کرد کی زندگی اور کردار کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا علی شیر کرد 13 جنوری 1976 کو بولان کے علاقے مچ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم مچ کی ہائی اسکول سے حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لیے ایف اے سی سائنس کالج شال میں داخلہ لیا۔ بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی اور لا کالج شال سے ایل ایل بی کیا۔
’’ شہید علی شیر کرد اعلی تعلیم یافتہ اور بہادر انقلابی کارکن تھے۔‘‘
انھوں نے کہا علی شیر کرد کے کردار اور تعلیم کی وجہ سے آپ کے خاندان کے دوسرے لوگ بھی بلوچ تحریک کا حصہ بنے۔ ان میں شہید ممتاز علی کرد ، شہید علی جان کرد اور شہید شیر زمان کرد آپ کے چچا زاد تھے کہ آپ کی شہادت کے کچھ وقت بعد شہید ہوئے۔
’’ شہید علی شیر کرد زمانہ طالب علمی سے بی ایس او سے وابستہ ہوئے اور سیاست کا آغاز کیا۔ 1999 کو بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کے ممبر بنے۔ اسی دوران بلوچ قومی رہنما خیربخش مری کے حق توار کے سرکل میں شامل ہوئے۔ بابو عبدالرحمان کرد، جبری لاپتہ احمد شاہ اور اسد مینگل بھی علی شیر کرد کے قریبی اور ہم خیال ساتھی تھے۔ ‘‘
انھوں نے مزید کہا علی شیر کرد سرمچار ، لکھاری اور وکیل تھے۔سرفیس سیاست میں وہ ایک مدبر سیاسی رہنما اور انڈر گراؤنڈ سیاست میں سرمچار اور کمانڈر تھے۔
اسی موضوع پر زون کے صدر استاد مھران نے بھی خطاب کیا، انھوں نے کہا آزادی کی تحریک میں بہت سی شخصیات نے جانوں کے نذرانے پیش کیے، ہر طرح کی تکالیف برداشت کیں لیکن ادارہ سازی میں ناکام ہوئے کیونکہ انھوں نے ادرہ سازی کی کوشش نہیں کی لیکن کچھ جہدکاروں نے ادارہ سازی کرنا چاہا ، انھوں نے ادارے بنائے اور مستحکم کیے۔علی شیر کا شمار بھی انہی جہدکاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے ادارہ سازی پر کام کیا اور ادارہ جاتی بنیاد پر کام کرنا چاہا۔ آج انہی ساتھیوں کے کام اور قربانیوں کی بدولت بلوچ تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔
انھوں نے کہا پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے 21 ستمبر 2010 کو شہید علی شیر کرد کے ایک رشتہ دار کے گھر سے ان کو اغواء کیا اور تین روز گزرنے کے بعد 24 ستمبر کو ان کی لاش ملی۔ وہ یہی سمجھے کہ انھوں نے علی شیر کرد کو شہید کرکے ختم کردیا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ علی شیر کا نظریہ آج بھی ہمارے ساتھ ہے اور ہم منزل کی طرف رواں ہیں۔
پروگرام کے نظامت کے فرائض ھنکین کے نائب صدر تلار ناز نے انجام دیئے اور مہمان خاص چیف اسلم تھے۔