بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے زیرِ اہتمام ایک کثیر القومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں بلوچستان، سندھ، پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی قوم دوست جماعتوں کے رہنماؤں اور نمائندگان نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد پاکستانی ریاست کی جانب سے ان خطوں میں جاری استعماری پالیسیوں، فطری وسائل کی لوٹ مار، جبری قبضے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مشترکہ سیاسی و سفارتی حکمتِ عملی تشکیل دینا تھا۔
تقریب سے خطاب کرنے والوں میں بی این ایم کے جونیئر جوائنٹ سیکریٹری حسن دوست بلوچ، ورلڈ سندھی کانگریس کے رہنما ڈاکٹر لکھو لوہانہ، جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے حبیب الرحمان، پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے فضل الرحمان آفریدی، عوامی ورکر پارٹی گلگت بلتستان کے شیرباز، اور جیے سندھ فریڈم موومنٹ کے سہیل ابڑو شامل تھے۔ مقررین نے ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں، معاشی استحصال، اور ثقافتی یلغار پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور محکوم اقوام کے درمیان باہمی اتحاد و جدوجہد پر زور دیا۔
کانفرنس کے موڈریٹر بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے ممبر حاتم بلوچ تھے جبکہ بی این ایم کے سیکریٹری ثقافت و اطلاعات قاضی داد محمد ریحان نے قرار داد پیش کی۔
مقررین نے اپنے خطابات میں کہا کہ پاکستان اس وقت چین اور امریکا کے درمیان ایک ’’ اسٹریٹجک سینڈوچ‘‘ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ امریکا اور چین دونوں کی نظریں ان خطوں کے فطری وسائل پر ہیں، اور یہ صورتِ حال محکوم اقوام کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنے گی۔ مقررین نے خبردار کیا کہ ان وسائل کی بندر بانٹ کا فائدہ صرف ریاستی اشرافیہ، بالخصوص فوجی اداروں کو پہنچے گا، جب کہ محکوم اقوام اور حتیٰ کہ پنجاب کے عام عوام بھی محروم رہیں گے۔ اس تناظر میں مقررین نے اقوام کو زیادہ منظم، باشعور، اور سفارتی طور پر متحرک ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔
انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ سندھ ایک خوشحال مگر غلام وطن ہے۔ یہاں 63 فیصد فطری گیس، ہزاروں ٹن کوئلہ اور یومیہ ہزاروں بیرل خام تیل پیدا ہوتا ہے، مگر بدلے میں سندھ کو صرف لاشیں، جبری گمشدگیاں اور جبری مذہبی تبدیلیاں ملی ہیں۔ سندھ کے نمائندگان نے سندھ کی خودمختاری کی بحالی، پنڈی کے قبضے سے نجات، اور ثقافتی و مذہبی جبر کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
مقررین نے کہا بلوچستان کی بندرگاہیں، معدنیات اور زمینیں غیر مقامی کمپنیوں کے حوالے کر دی گئی ہیں، اور بلوچ عوام کو ریاستی طاقت کے ذریعے خاموش کرایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریکوڈک، سینڈک، اور گوادر جیسے منصوبے مقامی عوام کی مرضی کے بغیر مسلط کیے گئے ہیں، جو نہ صرف معیشت کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ بلوچ ثقافت و تشخص کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
انھوں نے پاکستانی ریاست پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست نے استعماری طرزِ حکمرانی اختیار کر رکھی ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالی، سیاسی آوازوں کا گلا گھونٹنا، اور وسائل کی لوٹ مار روزمرہ کا معمول ہے۔ انھوں نے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ وہ ان مظالم پر خاموشی اختیار نہ کریں، کیونکہ خاموشی بذاتِ خود جبر کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ قرارداد پیش کی گئی جس میں دریائے سندھ پر چھ نئی نہروں کی تعمیر، کشمیر میں سابق فوجیوں پر مشتمل پولیس یونٹ کا قیام، اور بلوچستان میں سی پیک، ریکوڈک، سینڈک جیسے منصوبوں کو عوامی مفاد کے منافی قرار دیتے ہوئے انھیں اجتماعی طور پر مسترد کر دیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ محض ایک رسمی دستاویز نہیں بلکہ ایک عملی اعلامیہ مزاحمت ہے، اور اس کے تحت ان تمام منصوبوں کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائی جائے گی۔
کانفرنس میں گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی ریاستی لوٹ مار پر بات کی گئی ہے اور کہا گیا محکوم اقوام کو ہر خطے میں یکساں سلوک کا سامنا ہے۔
مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی ریاستیں، ادارے، اور کمپنیاں ان استحصالی منصوبوں میں شریک ہو کر محکوم اقوام کے خلاف جرم کا حصہ نہ بنیں۔ اگر ایسا ہوا تو ان اقوام کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کانفرنس میں شریک تمام رہنماؤں نے عہد کیا کہ وہ اپنی آئندہ جدوجہد کو مزید مضبوط، مربوط اور ہم آہنگ بنائیں گے تاکہ محکوم اقوام کو ان کا حق، آزادی اور خودمختاری واپس دلوائی جا سکے۔