معروف برطانوی رکن پارلیمنٹ جان میکڈونل نے جنیوا میں ساتویں عالمی بلوچستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا برطانیہ کے نقطۂ نظر سے ہمارا مؤقف یہ ہے کہ برطانوی حکومت کو بلوچ عوام کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے — چاہے وہ برطانیہ کے تاریخی کردار کی وجہ سے ہو یا صاف الفاظ میں کہا جائے تو اس مسئلے کو نظرانداز کرنے کے سبب۔ میرا یقین ہے کہ موجودہ لیبر حکومت پر اس سلسلے میں ایک خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
ساتویں عالمی بلوچستان کانفرنس کا انعقاد بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کی طرف سے کیا گیا تھا جس میں کئی سیاسی شخصیات ، انسانی حقوق کے کارکنان اور دانشوروں نے حصہ لیا۔
جان میکڈونل نے پارلیمنٹ میں اپنی مصروفیات کے باوجود آنلائن کانفرنس میں حصہ لیا ، انھوں نے اپنے خطاب میں کہا ہماری حکمتِ عملی یہ رہی ہے کہ ہم برطانیہ میں بلوچ تنظیموں کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کے اراکین کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کریں، تاکہ وہ وزراء پر دباؤ ڈال سکیں۔ مقصد یہ ہے کہ حکومت کو بیدار کیا جائے — ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طرف، جو جاری ہیں، پاکستان کی حکومت کی چین کے ساتھ ملی بھگت سے قدرتی وسائل کے استحصال کی طرف، اور اس کے نتیجے میں بلوچ عوام کو درپیش غربت اور مصائب کی طرف۔
برطانوی حکومت کے پاس کئی ذرائع ہیں: وہ پاکستان کو امداد دیتی ہے اور تجارتی تعلقات رکھتی ہے۔ اس لیے ہم پارلیمنٹ میں یہ سادہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ کون سے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں — چاہے وہ امداد کے ساتھ شرائط منسلک کر کے ہوں یا تجارتی دباؤ کے ذریعے — تاکہ بلوچ عوام کے انسانی حقوق اور ان کے حقِ خودارادیت کا تحفظ کیا جا سکے۔ ‘‘
برطانوی ممبر پارلیمنٹ نے بلوچستان کی صورتحال میں بہتری کے لیے اپنی کوششوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا اب تک ہمارا کام پارلیمانی سوالات، باضابطہ مباحثوں اور براہِ راست لابنگ پر مشتمل رہا ہے، جہاں برطانوی بلوچ کمیونٹی کے اراکین ویسٹ منسٹر آ کر ایم پیز کو گرفتاریوں، حراستوں اور جبری گمشدگیوں کے شواہد فراہم کرتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اس کا اثر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ کئی سالوں میں پہلی بار حکومتی وزراء ان مسائل سے آگاہ ہیں۔ ہمارا اگلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ اس آگاہی کو عملی اقدام میں بدلا جائے — پارلیمان میں مزید مباحثوں کے ذریعے، جہاں وزراء کو حکومت کے مؤقف اور اقدامات پر جواب دینا ہوگا۔
انھوں نے کہا ہم یہ بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، حراست میں رکھا گیا یا افسوسناک طور پر قتل کر دیا گیا، ان کے نام براہِ راست وزراء کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ وہ پاکستانی حکام کے مظالم کی انسانی حقیقت کو نظرانداز نہ کر سکیں۔ آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ابھی بہت طویل سفر باقی ہے۔
مجھے اپنے عزم کی دوبارہ توثیق کرنے دیں: میں اور میرے ساتھی بلوچ عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ہمارا پیغام واضح ہے: انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کرو اور حقِ خودارادیت کے اصول کو تسلیم کرو — جو بین الاقوامی انسانی حقوق کا ایک بنیادی جزو ہے۔‘‘
انھوں نے کہا حال ہی میں کابینہ کی تبدیلی اور نئے وزیرِ خارجہ کی تقرری کے بعد، ہم ملاقاتوں کی کوشش کریں گے تاکہ ایک مربوط حکمتِ عملی تشکیل دی جا سکے — دوطرفہ اور یورپی شراکت داروں کے ساتھ مل کر — تاکہ پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ ڈالا جا سکے۔ اس میں زندگی کے حق، انجمن سازی کی آزادی، آزادیِ اظہارِ رائے، اور اپنے مستقبل کے تعین کی آزادی کا دفاع شامل ہونا چاہیے۔
اپنی تقریر کے آخر میں انھوں نے بی این ایم کی ساتھیوں بلوچ تحریک کے لیے سفارتی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا میں برطانیہ میں بلوچ رہنماؤں کے عزم اور پیشہ ورانہ طرزِ عمل کو سراہتا ہوں، جنہوں نے پارلیمان میں لابنگ اور وزراء کے ساتھ روابط میں انتہائی محنت کی ہے۔ ان کا کام بے حد قیمتی ہے، اور ہم سب مل کر اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
– @johnmcdonnellMP at the Balochistan Conference: “End abuses and uphold the Baloch right to self-determination.”
Thank you, and apologies for joining you towards the end of your discussions. I am currently in Parliament, where a busy legislative schedule is underway.