سوال: دل مراد بلوچ صاحب بلوچستان کے موجودہ سیاسی حالات کو آپ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں؟
جواب: بلوچستان کے سیاسی حالات کے دو رخ ہیں۔ ایک طرف بلوچ قومی تحریک آزادی ہے اور دوسری طرف پاکستانی قبضہ اور قبضہ گیریت کو قائم رکھنے کے لیے پاکستان کی حیوانیت و سفاکیت ہے۔ پاکستان نے بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کےلیے اپنی پوری عسکری قوت جھونک دی ہے، نام نہاد پارلیمانی پارٹیوں کو ساتھ ملا لیا ہے، اور ڈیتھ سکواڈز تشکیل دیے ہیں، پاکستانی فوج ایک بے لگام اور دنیا و جہاں کے قانون و اخلاقیات سے نابلد درندہ صف فوج ہے جس نے بلوچستان کو قتل گاہ میں تبدیل کردیا ہے۔ ہزاروں لوگ جبری گمشدگی کے شکار ہیں، ہزاروں قتل کیے جاچکے ہیں، لاکھوں لوگ اندرون اور بیرون ملک ہجرت پر مجبور کیے جاچکے ہیں، قتل و غارت گری روز کا معمول بن چکا ہے۔ اور پاکستان پوری طرح کوشش کر رہا ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو پوری طاقت سے کچلا جائے۔ اس لیے آپ دیکھ رہے ہیں کہ روز بہ روز مظالم اور بلوچ نسل کشی میں اضافہ ہی ہورہاہے۔
دوسری طاقت بلوچ قومی تحریک ہے۔ جو اب ایک پختہ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ بیس سالہ مظالم اور سفاکیت کی طویل تاریخ کے باوجود بلوچ قومی تحریک میں کمزوری کے بجائے پیش رفت یہی ثابت کرتا ہے کہ ہماری تحریک کی بنیادیں شعوری، فکری اور تاریخی ہیں۔ اس لیے دشمن اسے کچلنے میں ناکام ہے۔ یہ تحریک نہ صرف پوری بلوچ سماج میں جڑی پکڑ چکی ہے بلکہ بلوچستان سے باہر ایک مضبوط ڈائسپورہ وجود میں آرہا ہے جو آگے چل کر بین الاقوامی سطح پر مزید منظم انداز میں بلوچ قومی تحریک کے بارے میں وسیع پیمانے پر آگاہی پھیلائے گی
اب بلوچ قوم اچھی طرح سمجھ چکا ہے کہ موجودہ تحریک بلوچ قوم کی موت و زیست کا معاملہ ہے۔ اس میں کامیابی سے بلوچ کی قومی شناخت اور بقا منسلک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ قوم اس تحریک کی کامیابی کے لیے ہمہ قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کررہی۔ دوسری طرف بلوچ سرمچار اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں، سیاسی، سماجی، سفارتی اور انسانی حقوق کے میدان میں بہتر انداز میں کام ہورہا ہے۔ مجموعی طور پر حالات امید افزا ہیں۔ بلوچ آزادی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
سوال: کیا آزادی پسند سیاسی پارٹیوں کی طرف سے مسلح جدوجہد کی حمایت ایک مثبت عمل ہے؟ کیا اس سے سیاسی پارٹیوں کی اپنی سرگرمیوں پر منفی اثرات نہیں پڑ رہے؟
جواب: مسلح جدوجہد کی حمایت ہماری پارٹی کی اساس میں شامل ہے کیونکہ مسلح جدوجہد بھی سیاست کا حصہ ہے اور وہ سیاسی عمل سے علیحدہ نہیں ہے۔ صرف ذرائع، ہدف، طریقہ کار اور حکمت عملی کا فرق ہے۔ بلوچ مسلح جدوجہد کی اپنی طویل تاریخ اور داستان ہے۔ ہر حملہ آور کے خلاف بلوچ نے مسلح جدوجہد کی ہے۔ جب تحریک کا آغاز ہوا تو شروع دن سے مسلح جدوجہد کا نمایاں کردار رہا ہے اور آج بھی ہے۔ لیکن مسلح جدوجہد کو سیاسی عمل پر فوقیت نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ تحریک کے تمام جزو سیاسی عمل کے پیداوار ہیں لہٰذا کسی ایک جز بشمول مسلح جدوجہد کو دوسرے جز پر فوقیت نہیں دی جاسکتی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالات اس نہج پر پہنچے کیسے؟ دیکھیں، جہاں جہاں بھی عوامی و جمہوری سیاست پر پابندی اور قدغن عائد ہو ، عوامی و جمہوری سیاسی عمل سے جڑے لوگوں کو جبری لاپتہ و قتل کیا جائے ، عوام کے خلاف اجتماعی سزا کا عمل بغیر کسی شد و مد کے جاری ہو، وہاں تحریک کے دوسرے جزو بشمول مسلح جدوجہد، تیزی سے پروان چڑھتے ہیں اور زیادہ تر لوگ اس میدان پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ یہ بھی ریاست کے خلاف موثر ہتھیار ہے۔ اس سے سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا، شرط یہ ہے کہ ہر جز اپنے دائرے میں رہ کر کام کرے اور ایک دوسرے کے کام میں مداخلت سے گریز کرے۔
سوال: بلوچ خواتین پر ریاستی جبر کوئی نئی بات نہیں مگر حالیہ کچھ عرصے سے ریاست پاکستان بلوچ خواتین (جیسے کہ نورجہان اور ماھل بلوچ) پر مسلح حملوں میں معاونت کے الزامات لگاکر پہلے گرفتار پھر میڈیا ٹرائل کر رہا ہے۔ اسکے پیچھے کیا ریاستی عزائم کارفرما ہیں؟
جواب: جی بالکل ! بلوچ خواتین کے خلاف ریاستی جبر نئی بات نہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا آیا ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ موجودہ بلوچ قومی تحریک میں خواتین کا کردار نمایاں ہے۔ انہوں نے سیاسی مزاحمت کا میدان سنبھالا ہوا ہے اور شعوری و فکری بنیادوں پر تحریک میں کردار اداکر رہی ہیں۔ کسی بھی قومی تحریک میں خواتین کا کردار کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ اس امر سے پاکستان بھی بخوبی آگاہ ہے کہ بلوچ خواتین کی متحرک کردار قبضے کے خاتمے کی تحریک میں اہم عنصر کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان نے خواتین کے خلاف بھی یکساں کاروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔ خواتین کے خلاف پاکستان کی سفاکیت اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنے میڈیا میں نظر آتا ہے۔ بنگلہ دیش جب آزاد ہوا تو دنیا نے دیکھا کہ سفاک پاکستانی فوج نے بنگالی خواتین کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کیا تھا۔ یہ وہی فوج ہے ، اس کی نفسیات و تربیت آج بھی وہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ واقعات کی اکثریت میڈیا میں آتے ہی نہیں۔ ڈر، خوف، فوج کی مسلسل دھمکیاں، روایتی بدنامی کا ڈر، دسترس نہ ہونے ، جیسے عوامل کی وجہ سے زیادہ تر واقعات وہیں دب جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔
سوال: بی این ایم اپنی گزشتہ کونسل سیشن کے بعد عالمی سطح پر پہلے سے زیادہ متحرک نظر آرہی ہے مگر بلوچستان میں بی این ایم کی سیاسی سرگرمیاں بظاہر نظر نہیں آرہی ہیں۔ کیا ریاستی جبر سامنے رکاوٹ ہے یا بی این ایم حکمت عملی تبدیل کرکے کام کر رہی ہے؟
جواب: بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہے۔ ریاست پاکستان کی جانب سے قوم پرست اور آزادی پسند سیاست کے خلاف کثیرالجہتی حکمت عملی سے کام لیا جا رہاہے۔ ایک جانب فوج کی ظلم و ستم ہے ، ڈیتھ سکواڈ کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور نام نہاد پارلیمانی پارٹیاں آزادی پسند تحریک کے خلاف پاکستان کے دست و بازو بن چکے ہیں اور بلوچ قومی تحریک کی کامیابی کو اپنی موت سے تعبیر کررہے ہیں۔ آزادی کی موقف کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کے لیے پاکستان پارلیمانی گروہوں کو متبادل کے طور پر استعمال کر رہی ہے، لیکن اس کے باوجود بلوچ قوم کی واضح اکثریت قومی تحریک کے حامی ہے۔ البتہ مسلسل نسل کشی ، سفاکیت اور روزانہ کی بنیاد پر جاری فوجی آپریشنوں کی وجہ سے اظہار کی صورتوں میں فرق آ چکا ہے لیکن اس کے باوجود ریاست بلوچ قومی تحریک کو ختم کرنے میں یا بلوچ قوم کو تحریک کی حمایت کرنے سے دست بردار کرنے میں ناکام ہے۔
اسی وجہ سے بی این ایم کےلیے بلوچ سرزمین پر بڑے پروگرام یا ماضی کی طرح کھلے عام جلسے جلوس اور مظاہرے کرنا مشکل ہو چکا ہے لیکن ہم نے متبادل حکمت عملی کے تحت کام جاری رکھا ہے اور کام ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر چونکہ ایسی کوئی قدغن نہیں اور بے شمار بلوچ یورپی یا دیگر ممالک میں سیاسی مقصد کی حصول کے لیے جلاوطنی اختیار کرچکے ہیں لہٰذا وہاں آپ کو زیادہ سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔
سوال: چینی ایئر بیس ، قدم قدم پہ چیک پوسٹیں ، سمندر میں غیرقانونی ماہی گیری ، کیا گوادر کے لوگوں کو زمینیں بیچنے کا احساس ہوا ہے کہ نہیں؟
جواب: جب بھی ریاستی طاقت اور سرمایہ یکجا ہوکر کسی خطے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا مقابلہ صرف قومی مزاحمتی عمل سے ممکن ہوتا ہے۔ صرف مقامی لوگوں کو انفرادی طور پر قصور وار ٹھہرانا مناسب نہیں کیونکہ گوادر میں ریاستی طاقت اور سرمایہ دونوں گوادر سے لوگوں کو زمینیں بیچنے پر مجبور کررہی ہیں۔ کچھ لوگوں نے زمینیں بیچی بھی ہوں گی لیکن ریاست ایسی حالات بنا رہا ہے کہ وہاں مقامی لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کیاجائے۔ آپ اندازہ کریں کہ گوادر ملٹی بلین ڈالر سی پیک کی بنیاد ہے لیکن وہاں لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ، روزگار کے ذرائع ناپید ہیں۔ وہاں کے لوگوں کی اکثریت کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے لیکن ٹرالروں کی ذریعے سمندری حیات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ وہاں بھی فوج کی جبر و تشدد بلوچستان کے کسی بھی دوسرے علاقے سے کم نہیں۔ پاکستان ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ گوادر کے مقامی لوگ انخلا پر مجبور ہوجائیں اور ان کی جگہ پر پنجابی اور چینیوں کو آباد کیا جاسکے۔
سوال: خطے میں پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلیوں، خاص کر سعودی عرب اور ایران کی قربت جبکہ عالمی قوتوں کی طرف سے چین کے گرد گھیرا تنک کرنے سے بلوچ قومی تحریک پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
جواب: خطے میں جتنی بھی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، ان سے ہمسایہ ہونے کے ناطے بلوچستان متاثر ہوگا۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر تبدیلی سے بلوچستان پر منفی اثر پڑے۔ جب افغانستان سے امریکی انخلا ہوئی تو بہت سے لوگوں نے پیش گوئیاں شروع کیں کہ اب بلوچستان کی قومی تحریک متاثر ہوگی، لیکن آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ امریکی انخلا سے بلوچ قومی تحریک پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا بلکہ بہت سے معاملات میں ہمیں پیش رفت نظر آرہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچ قومی تحریک کسی بیرونی قوت پر انحصار نہیں کرتا بلکہ یہ ایک انڈیجینئس تحریک ہے۔ اس لیے خطے کی سیاسی نشیب و فراز سے ہماری تحریک زیادہ متاثر نہیں ہوگا۔
سوال: سیاسی سرگرمیوں پر قدغن، جبری گمشدگیاں، اجتماعی سزائیں، جعلی مقابلے، ریاست کا تشدد کو بطور ہتھیار استعمال، ان مظالم کے ہوتے ہوئے بلوچ قومی سیاست کا مستقبل میں منظر نامہ آپ کو کیا نظر آرہا ہے ؟
جواب : بلوچ قومی سیاست کی مستقبل کا منظر نامہ مختلف عوامل پر منحصر ہے، جن میں ریاست کے اقدامات اور بلوچ عوام کو درپیش چیلنجز اور ان کے خلاف رد عمل شامل ہیں۔ ساتھ ہی بلوچوں کے ہمسایہ اقوام، ملکوں اور خطے کی مجموعی صورتحال پر بھی انحصار ہے۔ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی، جبری گمشدگیاں، اجتماعی سزائیں، اور ریاستی تشدد جیسی بربریت سے بلوچ قوم سات دہائیوں سے نبردآزما ہے۔ اسی لئے ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں پر مسلسل پابندیاں اور ریاست کی طرف سے تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کرنے سے بلوچ عوام کی حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، بلکہ انہوں نے اسے سیاسی شعور میں تبدیل کی ہے اور مزاحمت کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں سے ریاست پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ سکتا ہے اور اس کی سفارتی حیثیت متاثر ہوسکتی ہے لیکن اس مقام تک پہنچنے کےلیے ہمیں کثیرالجہتی کوششوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ سفارتی سرگرمیوں میں تیزی لانا ہوگا اور انسانی حقوق کے تنظیموں کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔
سیاسی منظر نامے اور علاقائی صورتحال میں تبدیلی ایک فطری عمل ہے، لیکن آج تک بلوچ قوم نے بھی اس عمل کو حالات کے مطابق اپنانے کی کوشش کی ہے۔ بلوچستان پر جبری قبضے اور آج سات دہائیوں کے بعد صورتحال یکسر مختلف ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ قوم نے حالات کو اپنے حق میں موڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اسے ہم کامیابی اسی لیے کہتے ہیں کہ ان تمام مظالم کے باوجود بلوچ قوم نے زبان، اور ثقافت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ بلوچی زبان میں لکھنے پڑھنے اور کتابوں کی دکانوں پر چھاپوں جیسی حالات میں بھی بلوچوں نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ ہاں، حالات کے مطابق طریقہ کار اور سیاست کی شکل میں تبدیلی بھی آئی ہے۔ مثال کے طور پر قوم پرستی کی سیاست پر پابندی کی وجہ سے قوم پرست تنظیمیں زیر زمین رہ کر اپنا ایجنڈا پھیلا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں جنم لے چکی ہیں۔ بلوچ تحریک کثیر الجہتی بن چکی ہے۔ یہ تمام قوم پرستی کی سیاست کی پیداوار ہیں۔ یہ بلوچستان کی آزادی تک جاری رہیں گی۔
سوال: آج سے بیس سال پہلے اور آج کی بلوچ قومی تحریک میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟ کیا تحریک درست سمت میں رواں دواں ہیں ؟
جواب: یقینا ہر تحریک میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک بھی اس سے مبرا نہیں۔ ایک ایسی تحریک جس کا مقصد آزادی ہو، جہاں ریاست بزور طاقت لوگوں کو مجبور کرنے کی کوشش کرے کہ وہ اپنا نظریہ تبدیل کریں اور سمت بھی۔ اس کےلیے حالیہ برسوں میں کئی لوگوں کو سرنڈر کرواکے تقریبات کی گئیں اور اسے جدوجہد کے خاتمے کی علامت قرار دیا گیا۔ کئی لوگوں کو اجتماعی سزا کے طور پر قتل کرکے ان کے سیاسی رشتہ داروں کو سرنڈر کرانے کی کوششیں کی گئی۔ یہاں بلوچ تنظیموں کی جانب سے بہتر حکمت عملی نے ہمیشہ ریاستی عزائم کو ناکام بنادی ہے۔ صحیح وقت پر درست فیصلے سمت کو درست کرنے اور تحریک کو دیرپا بنانے اور منزل تک پہنچانے کی ضامن ہوتی ہیں۔ نشیب و فراز کے بعد اس صدی کی اوائل میں تحریک کی موجودہ شکل ادارتی طرز سیاست نے ہمیں دو دہائیوں پر محیط جدوجہد میں توانائی فراہم کی ہے۔ تحریک کی شروع ہوتے ہی نائن الیون جیسے واقعات رونما ہوئے، جس نے دنیا اور خصوصا ہمارے خطے کی سیاسی صورتحال تبدیل کی۔ پاکستان ایک نان نیٹو اتحادی کی شکل میں سامنے آیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو نہ صرف بھاری امداد موصول ہوئی بلکہ اس دوران خطے میں امریکی موجودگی، افغان جنگ، شام اور عراق جنگ دنیا میں شہہ سرخیوں میں تھیں مگر بلوچ قوم نے ان حالات میں بھی دنیا اور عالمی میڈیا کو کسی حد تک اپنی جانب توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ایک درست سمت، صحیح اور بر وقت فیصلے ہی تحریکوں کو اس درجہ بلندی فراہم کرتے ہیں۔ آج تک، ہم اس میں کامیاب رہے ہیں۔
سوال: کل اگر بلوچ سیاسی قوتیں متحد ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے بلوچ جہد آجوئی پر کیا مثبت اثرات مرتب ہونگے؟
جواب: یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ مختلف سیاسی قوتوں کے درمیان اتحاد کا حصول ایک پیچیدہ کام ہے۔ اس کےلیے سمجھوتہ، اعتماد سازی، اور مستقبل کےلیے مشترکہ وژن کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ متحدہ محاذ کی کامیابی کا انحصار مختلف اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ مقاصد کےلیے مل کر کام کرنے کی خواہش پر ہوگا۔ یہ ایک چیلنجنگ عمل ہے جس میں شامل تمام فریقین کی مسلسل کوششوں اور عزم کی ضرورت ہوگی۔ تاہم اس سے بہت سے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
متحدہ محاذ بلوچ عوام کےلیے ایک مضبوط اور زیادہ مربوط سیاسی آواز اور جامع وکالت کی طرف ایک تبدیلی کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس سے وہ اپنے مطالبات کو بین الاقوامی سطح پر زیادہ وضاحت اور موثر انداز میں بیان کر سکیں گے۔ اس سے بین الاقوامی برادری کی طرف سے زیادہ حمایت اور توجہ حاصل ہوسکتی ہے۔ اور دنیا کے ساتھ مذاکرات میں بلوچ سیاسی قوتوں کی پوزیشن کو بھی مضبوط کر سکے گا۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ قوم پرست تحریکوں کو تاریخی طور پر اندرونی تقسیم اور شکست و ریخت کا سامنا رہا ہےجو تحریک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا آیا ہے ۔ ایک متحدہ محاذ اس کا تلافی کرسکتا ہے ،ہم نے ماضی بعید اور ماضی قریب کے بعض تلخ مراحل کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے ،اسلیے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اعتماد سازی کے لیے اپنے رابطوں میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے اور مجوزہ اتحاد کےلیے پہلے سے کئی درجہ زیادہ صبر، تحمل اور تدبر سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ سطحی یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کےلیے ہونے والے اتحاد نہ صرف ناپائیدار ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات مزید مایوسی کا سسب بنتے ہیں ۔
سوال: ایک عام تاثر موجود ہے کہ بغیر عالمی مدد اور حمایت کے آزادی کی تحریکوں کا کامیاب ہونا آسان نہیں، کیا بلوچ قومی تحریک کو کامیابی کےلیے بیرونی قوتوں پر انحصار کرنا پڑے گا؟
جواب: بیرونی حمایت اور مدد ایک اہم عنصر ہے لیکن اس پر سو فیصد انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ تحریک کو اپنی زمین پر مضبوط اور توانا کرنا زیادہ اہم ہے کیونکہ اس کے بغیر باقی تمام عناصر بے اثر ہوجاتی ہیں۔ عالمی امداد تحریک کی اندرونی ساخت، طاقت اور آپسی مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ ان سب عوامل کو باہم مربوط کرکے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ایک بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ ہماری سرزمین کی تزویراتی پوزیشن اتنی اہم ہے کہ اسے علاقائی یا عالمی طاقتیں زیادہ دیر نظرانداز نہیں کرسکتیں ،یہ اب بلوچ قومی تحریک کے لیڈرشپ کی سیاسی فہم و فراست پر منحصر ہے کہ کس حکمت عملی سے آگے بڑھ کر اپنے لیے علاقائی یا عالمی سطح اعتماد ،اعتبار اور اسٹریٹیجک پارٹنرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔
سوال: پاکستان موجودہ حالات میں شدید سیاسی اور معاشی انتشار اور عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے یہاں تک قرض لینے میں بھی اسے مشکلات کا سامنا ہے، عالمی قوتوں کی بیساکھیوں پر پاکستان کب تک چل سکتا ہے؟
جواب: پاکستان کبھی ایک خود کفیل ریاست نہیں رہا ہے۔ اپنی قیام کے چند ہفتے بعد امریکہ سے قرضہ لے کر حکومتی مشینری کو چلانے کا آغاز کیا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے، حتیٰ کہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل محمد علی جناح کو خان قلات سے بھی مدد لینی پڑی کیونکہ خان کا وکیل ہونے کی وجہ سے ان کے تعلقات تھے۔ کسی ملک کا معاشی مستقبل اس کے سیاسی اور اندرونی حالات پر منحصر ہوتے ہے۔ ایک منظم سیاسی و جمہوری نظام ہی کسی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہیں۔ پاکستان میں منظم سیاسی و جمہوری نظام شروع دن سے ناپید رہا ہے، آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کسی بھی شعبے میں منظم نہیں کیونکہ ایک ادارہ یعنی فوج پورے نظام پر حاوی ہے۔ پاکستان کے سارے وسائل فوج کے تصرف ہیں ، پورے سیاسی اور نام نہاد جمہوری عمل فوجی بندوق کے نوک پر عمل پذیر ہوتا ہے۔ فوج کی منشاء کے بغیر کوئی بھی حکومت ایک سال بھی پوری نہیں کرسکتا۔ ملک کے سب سے بڑے عہدے وزیر اعظم کو کسی فوجی کی نافرمانی کی سزا میں ایک ہی رات میں فارغ کی جاتی ہے۔ نام نہاد جمہوری عمل میں فوج پاکستان کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کو ایک کاروباری فرم کے طور پر بیچتا ہے۔ جب سیٹیں بکتی ہوں اور عوامی نمائندے بکاؤ مال ہوں تو ایسی ممالک کی تمام نظام ایسی ہی ہوتی ہیں۔ واضح نظام نہ ہونے کی وجہ سے سب ادارے کرپشن کے شکار ہیں۔ دوسری طرف یہ ملک کوئی تاریخی و تہذیبی پس منظر بھی نہیں رکھتا ہے۔ مغربی آقاؤں نے اپنی ضروریات اور مفادات کےلیے اسے وجود میں لایا تھا اور جب تک ان کے مفادات کی رکھوالی کرتا رہے گا تب تک مالی امداد کے نام پر اسے آکسیجن فراہم کرتے رہیں گے لیکن اس ملک کا خودکفیل ہونا یا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہی ناممکن ہے۔
سوال : پاکستان میں پارلیمانی انتخابات کچھ مہینے بعد متوقع ہیں دوسری طرف بلوچ آزادی پسند قوتیں دعوی کرتے ہیں کہ بلوچ عوام کی اکثریت بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو سپورٹ کرتی ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑی تعداد میں لوگ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں لہذا انتخابات کے خلاف بی این ایم کی مؤقف یا مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہے؟
جواب: انتخابات جمہوری عمل کا اہم حصہ ہوتے ہیں لیکن یہ وہاں ہوتا ہے جہاں جمہوریت ہو، جمہوری اقدار مضبوط ہوں جہاں تک پاکستان میں جمہوری انتخابات کی بات ہے آپ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں آپ کو کبھی آزادانہ انتخابات منعقد ہوتے نظر نہیں آتے ہیں جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو بلوچستان شروع دن سے پاکستانی فوج کے کنٹرول میں رہا ہے ،یہاں انتخابات کے نام پر صرف ڈھونگ رچایا جاتا ہے،2013 کے انتخابات آپ کے سامنے ہیں جب آج کی طرح گاؤں گاؤں میں فوج موجود نہیں تھا تو کسی نے بھی حصہ نہیں لیا اب چونکہ ہر پانچ دس کلومیٹر کے فاصلے پر فوج موجود ہے ۔فوج نے لوگوں کے لیے جینا حرام کر رکھا ہے ،طرح طرح کے مظالم سے عوام پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ کچھ لوگ ضرور اس میں حصہ لیں گے، لیکن ان کو اکثریت یا ان کا نظریہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لوگوں کو طاقت کے زور پر مجبور کیا جاتا ہے ، ۔اگر لوگوں کو آزادانہ رائے دہی کا آپشن دیا جائے تو میرے خیال سے کوئی بھی بلوچ ان انتخابات میں ووٹ ڈالنا اپنی توہین سمجھتا ہوگا اور کوئی بھی حصہ نہیں لے گا ۔ آپ پارلیمانی ممبراں کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہاں پارلیمانی سیاست میں کون لوگ شریک ہیں۔ بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کو دیکھیں کہ وہ کس سطح کا آدمی ہے، اسے سیاستدان کہنا لفظ "سیاست”کی توہین ہوگی۔
اس بارے میں بی این ایم کا موقف واضح ہے۔ بی این ایم اپنی بنیادی اساس یعنی بلوچستان کی آزادی، غیر پارلیمانی سیاست اور بلوچستان کیلئے لڑی جانے والی جنگ کی حمایت پر قائم ہے۔ ہم آج بھی لوگوں کو آگاہی دے رہے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں بلوچوں کیلئے کچھ نہیں رکھا بلکہ وہاں بیٹھ کر بلوچ نسل کشی، ظلم و بربریت، جبری گمشدگیوں کو قانونی اور جائز قرار دینے کی قرار دادیں منظور ہوتی ہیں۔ اگر ہم اس کٹھ پتلی پارلیمنٹ یا اس غیرفطری ریاست کا جتنی دیر حصہ رہیں گے، ہماری زبان و ثقافت کمزور ہوتے جائیں گے اور ہماری شناخت مٹ جائے گی۔ بلوچ قومی شناخت کو زندہ رکھنا بلوچستان کی آزادی میں مضمر ہے نہ کہ الیکشن اور ووٹوں میں۔ بلوچ قوم اس حقیقت سے بہت پہلے آگاہ ہوچکی ہے۔