نوآبادیاتی طاقتوں نے دنیا کی تہذیبی پسماندگی میں بڑا حصہ ڈالا ہے۔ دوسروں کی زمین اور وسائل پر قبضے کےان کے ہوس نے انسانوں کوتہذیبی ترقی کی شاہراہ سے بھٹکا کرخطرناک ہتھیار اور ناقابل تسخیر افواج بنانے کی طرف راغب کیا۔ اب ہم یہاں ہیں کہ دنیا میں 12512 ایٹم بم موجود ہیں اور دنیا کی تباہی کے لیے صرف دس سے سو ایٹم بم ہی کافی ہوں گے۔یعنی اکیلے پاکستان ہی پوری دنیا کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے پاس 170 ایٹم بم موجود ہیں۔
بلوچستان بھی برطانوی سامراج کے دنیا کے وسائل پر قبضے کی خواہش کے بھینٹ چڑھا۔ سن 1839 میں تاج برطانیہ نے اپنی طاقت ایک کمزور قوم کے خلاف استعمال کی اور اسے صدیوں کی غلامی میں دھکیل دیا۔وجہ صرف یہ تھی کہ وہ قوم اپنے ہمسایہ ملک کے خلاف اپنی زمین کے استعمال پر راضی نہ تھی۔
آج سن 1839 کے مملکت بلوچستان کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمارے ذہن میں مکمل پسماندگی کی تصویر آئے گی لیکن تاریخی دستاویز اس کے برخلاف عکس پیش کرتے ہیں۔بلوچستان کا بادشاہ لال شہید محراب خان 1816 کو حکمران ہوئے۔ آپ بلوچستان کے 26 ویں’ خان بلوچ‘ تھے۔بلوچ قبائل اپنے بے نظیر اتحاد کے ذریعے تاریخ میں پہلی باقاعدہ بلوچ ریاست کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔خطے کی بڑی طاقتوں اور کالونیل کشمکش کے دور میں اپنی خودمختاری کے اظہار کے لیے بلوچ حکمران اپنی حکومت کو ’حکومت بلوچی‘ کہا کرتے تھے، یعنی ریاستی اقتدار اعلی کا ضامن بلوچ عوام تھا۔ بلوچستان کو انتظامی طور پر پانچ صوبوں ساراوان ، کچ گندواہ ، جھلاوان ، لس اور مکوران میں تقسیم کرکے ملک کے ذیلی نظم و نسق کے لیے اضلاع تشکیل دیئے گئے تھے۔ ملک کی وزارتیں سرداروں کی بجائے پڑھے لکھے لوگوں کے سپرد تھیں۔ نسل در نسل حکمرانی کی وجہ سے خانان بلوچ میں سیاسی اور انتظامی پختگی آ رہی تھی ۔ خانان بلوچ کے پہناؤ اور سیاسی تدبر سے ان کی ترقی پسندی جھلکتی تھی۔ دنیا میں وہ ایک قومی ریاست کی تشکیل کا واضح نظریہ رکھتے تھے ، جو ان کے شعار و اطوار سے واضح تھا۔ اس لیے ان کی قیادت میں بلوچستان کا مستقبل روشن تھا۔ لیکن خطے میں ہونے والی تبدیلیوں اور انگریزوں کی خطے کے ممالک میں دلچسپیوں نے بلوچستان کو مشکلات میں ڈال دیا۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ دنیا کے دیگر بادشاہتوں کی طرح خان بلوچ کا دربار بھی محلاتی سازشوں کا گڑھ تھا۔ غیرملکی وزرا پر بھی حکومت بلوچی کو کمزور کرنے کے الزامات ہیں۔ لیکن حکومت بلوچی کے استحکام کو اندرون ملک خطرات ایسے نہ تھے جن سے خان بلوچ کو نمٹنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ۔
1834 میں انگریزوں نے افغانستان کے شاہ شجاع کی سلطنت کو بحال کرنے کے لیے ان کی مدد کا فیصلہ کیا۔افغانستان ان کے لیے دیگر کالونیل طاقتوں کو ہندوستان کی سرحدوں سے دور رکھنے کے لیے اہم تھا اور وہاں پہنچنے کے لیے بلوچستان کے حکمرانوں کی حمایت اور بلوچ زمین کی ضرورت تھی۔ برطانیہ نے لیفٹیننٹ لیچ کو خان بلوچ کی مدد حاصل کرنے کے لیے کلات بھیجا مگر خان بلوچ افغانستان پر حملے کے لیے اپنی زمین دینے پر راضی نہ ہوئے۔ آپ چاہتے تھے کہ شاہ شجاع انگریزوں اور بیرونی مدد کے بغیر اپنی حکومت حاصل کریں۔ اس لیے لیچ اور خان بلوچ کے درمیان معاہدے کی کوشش ناکام ہوئی بلکہ بلوچستان میں انگریزوں کو بلوچوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
انگریزوں نے دوبارہ مفاہمت کی کوشش کی۔ سر الیگزنڈر برنس معاہدے کے لیے کلات آئے تاکہ خان بلوچ کو شال میں شاہ شجاع سے ملاقات کے لیے رضامند کرسکیں۔ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ افغانستان پر شاہ شجاع کے حق حاکمی کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے شال میں ملاقات کرکے انھیں خراج تحسین پیش کریں۔ یہ مطالبہ توہین آمیز اور حکومت بلوچی کی خودمختاری کے خلاف تھا۔ خان بلوچ نے بغیر چون و چرا اس مطالبے کو مسترد کردیا۔ انگریزوں نےحکومت بلوچی کے اس فیصلے کو غداری اور بری نیت سے تعبیر کرتے ہوئے خان بلوچ کو انگریزوں کا دشمن قرار دیتے ہوئے اسے سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
وہ اس سے قبل بھی مختلف مہمات کے ذریعے بلوچستان کی خودمختاری اور آزادی کے خلاف ساز ش بُن رہے تھے۔ اب انھیں ایک جواز مل چکا تھا کہ وہ خان بلوچ کو معزول کرکے یہاں اپنا کٹھ پتلی حکمران بٹھائیں۔ سر تھامس ولشائر کی بریگیڈ کابل سے واپس ہندوستان جا رہی تھی ، جس کے ایک دستے کو کلات پر حملے کا حکم ملا۔
انگریزوں کی فوج نے 13 نومبر کو کلات کو گھیر لیا ۔ توپوں سے حملہ کرکے کلات کی دیواریں ڈھا دی گئیں۔ خان بلوچ 700 سپاہیوں کے ساتھ دشمن کے ساتھ دو بدولڑائی کے لیے میدان جنگ میں اترے۔ آپ بہادری سے لڑے۔ جسم پر 35 زخم آنے کے باوجود آپ اپنی تلوار سے دشمن پر وار کر رہے تھے کہ ولشائر نے آپ کو نشانے پر لیتے ہوئے بندوق سے فائر کیا۔ 13 نومبر 1839 ، دوپہر کے وقت خان بلوچ محراب خان شہید ہوئے اور ان کے خون سے بلوچستان کا سرخ و سبز جھنڈا لال ہوگیا۔
اس لڑائی میں عبدالکریم رئیسانی ،سردار ولی محمد شاھی زھی مینگل ، میر تاج محمد شاھی زھی مینگل، میر محمد علی شاھی زھی مینگل، میرفضل محمد ، سردار زمان خان پندرانی ، میر دادکریم چندوزھی شاہوانی، میر شھباز خان نیچاری، میر بدل خان نیچاری، خان محمددہوار اربابِ شہر کلات ، میرنبی بخش جتوئی علاقہ نرمک کلات، میر قیصر خان بزنجو‘ میرشاہ دوست بزنجو ، محمد رضا وزیر خیل، نور محمدشاھی ولد پولات سگار سرمستانی انچارج اسلحہ خانہ‘، تاج محمد شاغاسی، دیوان بچا مل وزیرِ مال، دیوان کھیم چند، دیوان آسرداس مکھی ہندو پنچائیت کلات اور ان کے علاوہ 400 دیگر بلوچ شہید ہوئے۔
اس جنگ میں بلوچ ہار گئے اور بلوچستان کی غلامی کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا۔ مگر آج 193 سال گزرنے کے باوجود بلوچ لال شہید محراب خان کو عزت و تکریم سے یاد کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک منتشر اور کم آبادی والے وسیع رقبے پر پھیلے ملک کے دفاع کے لیے ایک مختصر فوج کے ساتھ وقت کے سپر پاور سے ٹکر لی۔ سپرپاور جیت گیا ۔ اس نے بلوچوں کو سر نہ جھکانے کی بہت بڑی سزا دی لیکن تاریخ میں لال شہید محراب خان سرخ رو ہوئے ۔
ہم آپ کے یوم شہادت کے موقع پر تمام بلوچ شہداء کی یاد مناتے ہوئے تمام بلوچ شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنھوں نے وطن کے دفاع اور آزادی کےلیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم )