بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) کے چئیرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ حکومت پاکستان نے بلوچ سرزمین پر ایک وسیع اور جامع فوج کشی کا اعلان کیا۔ اس اعلان، اعلان کے پیغام ، اس کے پس منظر، پیشن منظر پر سوچنا ، قومی سطح پر تجزیہ و ادراک کرکے ردعمل دینا ہمارا قومی، وطنی اور سیاسی فرض ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے بیانات کو سطحی اور محض اعلان نہ سمجھیں کیونکہ ایسے بیانات وسیع اور کثیرالجہتی ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حکومتی فیصلے اور اعلان کے تمام جہات کا تجزیہ اور ادراک کرکے قومی سطح پر جامع ردعمل سامنے لائیں۔
سب سے پہلے ہمیں بحیثیت قوم سوچنا چاہیے کہ حکومت پاکستان ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ بلوچستان میں آپریشن کیا جائے گا، یعنی مستقبل کے لیے آپریشنز کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہاں زبان اور الفاظ کا استعمال ایک خاص نفسیاتی حربے کے طور پر ہمیشہ ”فعل مستقبل“ کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کا مقصد نہ صرف جاری فوجی کارروائیوں اور ہولناک اجتماعی سزا اور نسل کشی کو چھپانا ہے بلکہ عوامی توجہ کو متوقع آپریشن کے نام پر اصل معاملات و حالات سے ہٹانا بھی ہے۔ یہ ایک منظم اور جدید پروپیگنڈا ہے جس کے ذریعے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستانی ریاست اور فوج بلوچستان میں اب تک کچھ نہیں کر رہی اور جو کچھ ہو گا، وہ مستقبل یا آنے والے دنوں میں کیا جائے گا۔
پاکستانی ریاست اور فوج بلوچستان میں دہائیوں سے فوجی کَشی، نسل کشی اور اجتماعی سزا جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن عوامی سطح پر ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ’’ آپریشن ‘‘ کی ابتدا ہونے والی ہے۔ اس حکمتِ عملی کے ذریعے ریاست نہ صرف اپنی جاری کارروائیوں کی پردہ پوشی کرتی ہے بلکہ اپنی عوام کے ذہنوں میں یہ جھوٹا بیانیہ بھی پروان چڑھاتی ہے کہ بلوچستان میں ابھی تک کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا۔ وہ مستقبل کی دھمکی سے بلوچوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ بلوچ موجودہ فوجی کارروائیوں کی شدت و ہولناکی پر توجہ نہ دے سکیں۔
پاکستانی ریاست اور فوج کے لیے بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت اور وسائل کے بے دریغ استعمال اور تزویراتی سودا بازی کے سوا بلوچ قوم کی حیثیت محض ایک نوآبادی اور غلام کی ہے۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال خطہ ہے لیکن یہ مالامال خطہ اپنے باسیوں کو دو وقت کی روٹی اور سکون سے زندگی جینے کا حق نہیں دے سکتا کیونکہ سکون سے زندگی آزاد زمین پر اور خوشحالی اپنے وسائل کی آپ مالک ہونے میں مضمر ہے۔ یہ کارروائیاں محض تزویراتی سیکورٹی، قبضہ مضبوط کرنے تک محدود نہیں بلکہ بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ ان کارروائیوں کے نام پر فوج، فوج کے ذیلی ادارے، اعلیٰ فوجی افسراں دفاعی بجٹ کے علاوہ اضافی بجٹ اور دیگر مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جو اعلیٰ فوجی افسر دو سال کے لیے بلوچستان میں تعینات ہوتا ہے، اس کی ذاتی دولت ملٹی بلین ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ پیسے بلوچ عوام کے لہو بہانے اور وسائل کی لوٹ مار سے حاصل کیے جاتے ہیں۔
جب بھی ریاست نئے اور مزید ہولناک کارروئیوں کا اعلان کرتی ہے، اس میں یہ اعتراف پنہاں ہوتا ہے کہ بلوچ مزاحمتی تنظیموں نے گذشتہ دو دہائیوں میں گوریلا جنگ کے ذریعے ریاست کو چیلنج کیا ہے۔ یہ تنظیمیں بلوچستان کے وسیع جغرافیے اور دشوار گزار پہاڑوں میں اپنی پناہ گاہوں اور عوامی حمایت سے خود محفوظ اور فوج پر پے در پے حملے کرتے ہیں۔ گوریلا جنگ کی حکمتِ عملی اور وسیع عوامی حمایت انھیں موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ پاکستانی فورسز پر حملے کریں اور پھر محفوظ مقامات پر واپس چلے جائیں۔ گذشتہ بیس سالہ جنگی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی فوج اس جنگی حکمتِ عملی کا مؤثر جواب دینے سے قاصر ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی ناکامی کا غصہ عام بلوچ عوام پر نکالتی ہے اور بلوچ قوم کو تحریک سے دستبردار کرنے اور ریاستی نظام کو قبول کرنے کے لیے اجتماعی سزا کا نشانہ بناتی ہے۔ اس جتماعی سزا کی حکمت عملی کے تحت پاکستانی فوج نہتے شہریوں اور زیر تعلیم نوجوانوں کو نشانہ بناتی ہے، انھیں جبری لاپتہ کیا جاتا ہے، غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثر انھیں ماورائے عدالت قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب مظالم اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاستی مشینری اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے مظلوم عوام پر ظلم و ستم کو بڑھانے میں مصروف ہے۔
بلوچستان میں جاری فوجی کارروائیاں اور ریاستی بیانات ایک گہری سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد بلوچ عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا اور ان کی سرزمین کے وسائل کو لوٹنا ہے۔ یہ کارروائیاں نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کے بھی منافی ہیں۔ دنیا کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچستان کے عوام اپنے حقوق اور آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اور انھیں ان کے حق خود ارادیت سے محروم رکھنا ایک سنگین ناانصافی ہے۔
یہی وقت ہے کہ بلوچ عوام کے حقوق اور ان کی مزاحمت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے اور ریاستی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ ریاستی جبر اور نفسیاتی حربوں سے بلوچ عوام کے حوصلے پست نہیں ہوں گے، بلکہ ان کی آزادی کی جدوجہد مزید مضبوط ہوتی جائے گی۔
عالمی اداروں کی اس تمام صورت حال پر خاموشی اور غیر فعالیت اس نسل کشی میں معاونت کے مترادف ہے۔ یہ خاموشی نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی برادری کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کا مظہر بھی ہے جو بلوچ عوام کے مصائب کو مزید بڑھاتی ہے۔
انھوں نے کہا، میں عالمی برادری کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے بلوچستان میں جاری فوجی کارروائیاں اور نسل کشی میں چین کا بڑھتا ہوا کردار ایک ناقابلِ تردید حقیقت بن چکا ہے۔ چین نے اپنے سامراجی اور توسیع پسندانہ منصوبوں کے تحفظ کے لیے بلوچستان میں پاکستانی ریاست کی بربریت کو نہ صرف حمایت فراہم کی ہے بلکہ مالی اور تکنیکی وسائل کے ذریعے اسے تقویت بھی دی ہے۔ گوادر پورٹ اور سی پیک جیسے منصوبے اس حقیقت کے واضح ثبوت ہیں۔ چین کے سامراجی منصوبے، بالخصوص سی پیک، بلوچ عوام کی منشاء کے خلاف ایک سامراجی و استحصالی منصوبہ ہے۔ ان منصوبوں کے تحت بلوچ عوام کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے جن کے خلاف بلوچ عوام ہر سطح پر مزاحمت کرر ہے ہیں۔ پاکستان ایک سطح پر اس مزاحمت کو ترقی کے خلاف رکاوٹ یا عالمی سازشوں کا شاخسانہ قرار دے کر سفاکیت اور جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، چین واضح خطوط پر بلوچستان میں ایک سامراجی اور توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ بلوچ سرزمین پر موجود ہے۔ یہ نہ صرف بلوچ سرزمین، بلوچ قومی تشخص و بقا کے خلاف واضح خطرہ ہے بلکہ خطے میں توازن کی جنگ میں چین اپنی برتری چاہتی ہے۔ چین پاکستان گٹھ سے اپنی ہی سرزمین پر ہم پر زمین تنگ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہم اس کے خلاف ہر محاذ پر مزاحمت کریں گے۔