بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے بلوچ قومی تحریک کی تاریخ میں مسلح جدوجہد کوئی نیا باب نہیں بلکہ ایک تاریخی تسلسل ہے۔ بلوچ قوم نے جب بھی اپنی زمین، شناخت اور قومی بقا کو خطرے میں پایا، اس نے مزاحمت کو مقدس فریضہ جانا۔ انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت سے لے کر پاکستانی قبضے کے خلاف جاری جدوجہد تک، بلوچ سرمچار اپنے خون، قربانی اور استقامت سے اس جدوجہد کو عزت، نظریے اور قومی غیرت سے جوڑتے آئے ہیں۔
انھوں نے کہا آج کی مسلح جدوجہد نے نہ صرف شدت اختیار کی ہے بلکہ اپنی تنظیمی مہارت، عوامی حمایت اور گوریلا حکمت عملی کے ذریعے پاکستانی فوج کی عسکری قوت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ہر دوسرے روز بلوچ سرمچار بلوچستان کی بڑی شاہراہوں پر اعلانیہ ناکے لگاتے ہیں، فوجی قافلوں کو نشانہ بناتے ہیں اور گھنٹوں راستے بند رکھتے ہیں لیکن پاکستانی فوج کی کوئی موجودگی نظر نہیں آتی۔ جب سرمچار اپنے محفوظ مورچوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں تو ریاستی فوج اپنی شکست کا بدلہ عام نہتے شہریوں، بزرگوں، عورتوں اور بچوں پر قہر ڈھا کر لیتی ہے۔ یہ طرزِ عمل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ پاکستانی ریاستی مشینری فکری، عسکری اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوچکی ہے۔
چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ریاستِ پاکستان قومی تحریک اور اس کے اہم جُز گوریلا مزاحمت کا براہ راست مقابلہ کرنے سے قاصر ہوچکی ہے۔ انتقامی ہتھکنڈوں کے طور پر جبری گمشدگیاں، اجتماعی سزا، ماورائے عدالت قتل، اور مسخ شدہ لاشیں ریاستی پالیسی کی حکمت عملی کا بنیادی ستون بن چکے ہیں۔ مگر اس سے بھی خطرناک رجحان یہ ہے کہ ریاست غیر اعلانیہ "ڈیتھ اسکواڈ” کے بعد اعلانیہ "امن لشکر” کے نام پر منظم دہشت گردی کی شکل سامنے لارہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ سالوں کا مشاہدہ ہے کہ ڈیتھ اسکواڈ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں کام کرنے والے جرائم پیشہ افراد کے جتھے ہیں، جنھیں فوج اور خفیہ اداروں کے ذریعے بلوچ سماج کے اندر اتارا گیا ہے تاکہ وہ قومی تحریک کے خلاف کارروائیاں کریں، سماج میں زہر پھیلائیں، کارکنوں کو اغوا کریں، قتل کریں، خوف پھیلائیں اور قبائلی و سماجی تنازعات کو ہوا دے کر تحریک کو کمزور کریں۔ لیکن یہ ریاستی حربہ کسی حد تک ناکام ہوا یا مطلوبہ نتائج نہ دے سکا۔ آج کل یہی کام اعلانیہ ’’ امن فورس ‘‘ جیسے ناموں سے بلوچستان کی نام نہاد صوبائی حکومت کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں رکھنی کے علاقے میں سرفراز بگٹی کے بھائی آفتاب بگٹی کی سربراہی میں ایک لشکر نے بلوچ سرمچاروں پر حملہ کیا، جس میں چار سرمچار شہید ہوئے۔ یہ واقعہ اس امر کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ ریاست اب براہ راست مافیاز، قبائلی ملیشیاؤں، اور کرایے کے قاتلوں پر انحصار بڑھا رہی ہے۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے مزید بتایا اس سے بھی تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں داعش جیسے بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کو کیمپ اور تربیت گاہیں فراہم کی ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ نہ صرف بلوچ تحریک بلکہ خطے میں دیگر ممالک کے خلاف بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ عمل پاکستان کو عالمی سطح پر دہشت گردی کا سہولت کار ثابت کرتا ہے۔ دنیا کے لیے یہ ایک علاقائی نہیں، عالمی خطرہ ہے۔
بلوچستان کے موجودہ صورت صورت حال پر ہم عالمی ضمیر کے سامنے درجہ ذیل مطالبہ رکھتے ہیں کہ بلوچستان میں جاری مزاحمتی جدوجہد ایک جائز، اصولی اور تاریخی تسلسل ہے، جو نوآبادیاتی قبضے کے خلاف ہے۔ یہ حق اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین میں تسلیم شدہ ہے۔
1۔ ریاستی سرپرستی میں ڈیتھ اسکواڈز، امن لشکروں اور مذہبی دہشت گردوں کی تربیت و استعمال بین الاقوامی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، جس کا عالمی برادری کو فوری نوٹس لینا چاہیے۔
2۔ بلوچستان میں داعش کے کیمپوں کی موجودگی اور ان کا فوجی استعمال، پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اقوامِ متحدہ اور علاقائی طاقتیں اس پر فوری ایکشن لیں۔
3۔ بلوچ عوام پر اجتماعی سزا کا اطلاق، شہریوں کا اغوا، عورتوں اور بچوں کی بے حرمتی اور ماورائے عدالت قتل، یہ سب جنگی جرائم ہیں، جن کے خلاف عالمی فوجداری عدالت میں مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔
4۔ بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) ہر سطح پر اپنی مزاحمتی سیاسی جدوجہد جاری رکھے گی—قلم، زبان، سفارتکاری جیسے اہم مورچوں پر اپنی جدوجہد نہ صرف رکھے گی بلکہ اس میں مزید وسعت لائے گی۔
5۔ ہم تمام عالمی انسانی حقوق اداروں، جمہوری قوتوں، سول سوسائٹی، صحافیوں، دانشوروں اور عالمی ضمیر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے اس انسانی المیے پر توجہ دیں، پاکستانی جرائم کو دستاویزی شکل دیں، مہذب دنیا کے سامنے لانے میں ہماری مدد کریں اور ریاستِ پاکستان کو عالمی قانون کے کٹہرے میں لائیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بلوچستان اس وقت پوری دنیا کے لیے ایک امتحان ہے۔ یہ دیکھنے کا وقت ہے کہ کون ظالم کے ساتھ کھڑا ہے اور کون مظلوم کے۔ بلوچ قوم اپنی وجود، اپنی زبان، اپنی زمین اور اپنی آزادی کے لیے لڑ رہی ہے۔ یہ جنگ فقط بارود کی نہیں، یہ فکر، حق، اور انسانیت کی جنگ ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) اس جدوجہد کو ہر مزاحمتی سیاسی محاذ پر جاری رکھنے کا اعلان کرتی ہے۔