بلوچ نیشنل موومنٹ کے چئیرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بارکھان میں ہونے والی دلخراش واقعہ کے بارے میں کہا کہ ریاست اور ریاستی ایجنٹوں نے بلوچ نسل کشی اور مظالم میں نہایت تیزی لائی ہے۔ بارکھان میں علاقے کے ایم پی اے اور نام نہاد صوبائی وزیر عبدالرحمٰن کھیتران نے ایک ماں کو چھ بچوں سمیت نجی جیل میں رکھا۔ ان میں ایک بچی بھی شامل تھی۔ انھیں چار سال تک جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا جن کی لاشیں منگل کے روز عبدالرحمٰن کی حویلی کے قریب سے برامد ہوئی ہیں۔ اس درندگی کا جواب دینے کے لیے لوگوں کو اس درندہ صفت شخص کے خلاف مزاحمت کرنا ہوگا۔ ریاست اور ریاستی ایجنٹوں کے خلاف مزاحمت ہم سب کا فرض ہے۔ بلوچ معاشرے میں ایسے کرداروں کی کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستانی ریاست نے مقبوضہ بلوچستان میں قوم دوستی کی سیاست پر پابندی لگا کر ہماری سرزمین کو پارلیمانی جماعتوں کے حوالے کیا ہے تاکہ وہ بلوچ روایات کو آسانی سے کچل کر ختم کرے۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ بچوں کے والد خان محمد گزینی مری نے کئی دفعہ سوشل میڈیا میں نام نہاد ریاست، ریاستی اداروں اور نام نہاد قبائلی سربراہوں سے مدد کی اپیل کی لیکن ایک بلوچ ہونے کی وجہ سے اسے کوئی سننے والا سامنے نہیں آیا۔ تمام قبائلی شخصیات کل بھی خاموش تھے اور ان کے قتل پر آج بھی خاموش ہیں کیونکہ ان کا اور عبدالرحمٰن کا آقا ایک ہے۔
’’ان بچوں کی نجی جیل میں موجودگی کے بارے میں خود پاکستان کی سینیٹ میں سینیٹر کامران مرتضیٰ نے نشاندہی کی تھی کہ خان محمد کی بیوی اور بچے ایک صوبائی وزیر کی نجی جیل میں ہیں۔ اس پر کسی نے توجہ نہیں دی کیونکہ بلوچستان میں تمام ایم پی اے جی ایچ کیو کی آشیرباد سے منتخب ہوتے ہیں۔ اس کے بدلے میں انہیں بلوچوں پر مظالم اور نسل کشی کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ اس وقت نام نہاد اسمبلی کے تمام اراکین پاکستانی فوج کی ایما پر بلوچستان میں لوگوں کی تذلیل، قتل عام، قوم پرستی کی سیاست کی بیخ کنی، آزادی پسندوں کی مخبری اور مذہبی شدت پسندی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ایسے واقعات پر ان کی خاموشی خود ہمارے موقف کی تصدیق ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ عبدالرحمٰن کھیتران نے خان محمد مری کی چھوٹی بچی فرزانہ کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا اور منگل کے دن ان کے گلے کو کاٹ کر جس دیدہ دلیری سے قتل کیا ہے، وہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ صوبائی وزیر اپنے آقا کی حکم پر سب کچھ کر رہا ہے۔ دوسری طرف یہ واقعہ ماھل بلوچ کے اغوا کی طرف لوگوں کا دھیان ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔ بارکھان کا واقعہ نہایت تکلیف دہ اور ایک سنگین جرم ہے۔ پاکستانی ادارے پہلے ہی بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی ادارے بلوچستان میں مداخلت کرکے بلوچ نسل کشی کو روکنے میں کردار ادا کریں۔‘‘
ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا ریاستی اداروں کی پشت پناہی میں نام نہاد صوبائی وزیر عبدالرحمن کھیتران نے خان محمد مری کی بیوی گراناز، ان کی بیٹی فرزانہ ، ان کے بیٹے بائیس سالہ محمد نواز، پندرہ سالہ عبدالقادر اور ایک چھوٹی بچی کو نہایت بیدردی سے قتل کیا اور لاشیں پھینک دیں۔گراناز نے اپنی زندگی میں عبدالرحمن پر الزام عائد کیا تھا اور اس بات کی تصدیق ہوچکی تھی کہ یہ خاندان عبدالرحمن کھیتران کے جیل میں غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس کے باوجود عبدالرحمن کھیتران نے ان کو قتل کرنے میں قانون کا خوف محسوس نہیں کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ریاستی ادارے اس کو تحفظ فراہم کریں گے۔
بی این ایم چئیرمین نے کہا کہ بارکھان اور اس جیسی کئی واقعات کے بعد بھی اگر کوئی سمجھ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے فریم ورک میں رہ کر بلوچ حقوق، اور ننگ و ناموس کی حفاظت کر سکتا ہے تو وہ نہایت ہی غلطی پر ہے۔ پارلیمانی جماعتوں کے کارکنوں کو بھی اس بات کا ادراک کرکے بلوچ جہد آزادی میں شامل جماعتوں کی حمایت کرنا چاہیے تاکہ کل وہ اپنے ضمیر کو مطمئن اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک اچھی مثال قائم کرسکیں۔ بصورت دیگر وہ تاریخ میں عبدالرحمن کھیتران جیسے کرداروں کے جرم میں شریک ٹھہریں گے۔