جنیوا، سوئٹزرلینڈ: بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 60ویں باقاعدہ اجلاس کے دوران جنیوا میں تین روزہ سرگرمیوں کا انعقاد کیا، جس میں پریس کانفرنس، احتجاج، اور تصویری نمائش شامل تھیں۔ ان سرگرمیوں کی قیادت بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کی جبکہ بی این ایم کے فارن ڈیپارٹمنٹ نے ان کا انتظام کیا۔ یہ بی این ایم کے باقاعدہ پروگرامات کا حصہ تھے جن کے ذریعے بی این ایم بین الاقوامی برادری کو بلوچستان کی صورتحال، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بلوچ قوم کے جاری جدوجہد سے آگاہ کرتا ہے۔
اسی اجلاس کے دوران بی این ایم نے ساتویں بین الاقوامی بلوچستان کانفرنس منعقد کی، جس کا موضوع تھا: ’’بلوچستان کے لیے جدوجہد: حقوق، مزاحمت اور علاقائی اہمیت‘‘۔ اس عالمی سطح کی کانفرنس میں بلوچ قیادت، بین الاقوامی اور برادر اقوام کے نمائندگان، اور انسانی حقوق کے کارکنان نے شرکت کی اور بلوچستان کے سماجی و سیاسی حقائق اور جاری انسانی حقوق کے مسائل کو اجاگر کیا۔
ساتویں بین الاقوامی بلوچستان کانفرنس

کانفرنس میں انسانی حقوق اور بلوچ قومی سوال پر توجہ دی گئی، اور اس میں اہم شخصیات جیسے ڈاکٹر نسیم بلوچ، برطانوی رکن پارلیمنٹ جان مکڈونل، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے صدر محسن داوڑ، انسانی حقوق کے وکیل ریڈ براؤڈی، بی این ایم کے خارجہ سیکریٹری فہیم بلوچ، بی این ایم کے سی سی ممبر اور پانک کے کوآرڈینیٹر حاتم بلوچ، ورلڈ سندھی کانگریس کے رہنما رؤف لغاری، اور کالم نگار ڈاکٹر محمد تقی نے خطاب کیا۔ حکیم بلوچ نے اس پروگرام کی نظامت کی جبکہ اسیر بلوچ قیادت جیسے استاد واحد کمبر بلوچ اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی تصاویر کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا تاکہ بلوچ سیاسی قیادت کے ساتھ پاکستانی سلوک کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا جا سکے۔
بین الاقوامی برادری بلوچ قوم کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرے۔ ڈاکٹر نسیم بلوچ
بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے زور دیا کہ بلوچستان میں کوئی بھی غیر ملکی سرمایہ کاری یا منصوبہ بلوچ قوم کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ’’یہ اہم نہیں کہ کون سا ملک اپنے مفادات مسلط کرنے کی کوشش کرے؛ چاہے وہ علاقائی ہو یا عالمی طاقت، کسی ریاست کو یہ حق نہیں کہ ہماری زمین کا استحصال ہمارے خلاف کرے۔ بلوچستان کی دولت بلوچ قوم کی ملکیت ہے، اور صرف ہم فیصلہ کریں گے کہ اسے کیسے استعمال کیا جائے۔‘‘
انھوں نے بلوچستان کی تاریخی خودمختاری کا ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان کی جانب سے 1948 میں بلوچستان کا جبری الحاق کیا گیا، حالانکہ کلات پارلیمنٹ نے الحاق کو مسترد کر دیا تھا۔ ’’ہماری جدوجہد صرف سیاسی نہیں، بلکہ تاریخی اور قانونی شناخت کا مطالبہ ہے۔ ہم بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچ خودمختاری کو تسلیم کرے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے، اور بلوچ قوم کے حقِ خودارادیت کو مانے۔‘‘
ڈاکٹر نسیم بلوچ کی مکمل تقریر: https://thebnm.org/urdu/chairperson/23902/
ہماری حکمت عملی ہے کہ وزرا پر دباؤ ڈال کر بلوچستان کے استحصال کو روکیں۔ جان مکڈونل
برطانوی رکن پارلیمنٹ جان مکڈونل، جو آن لائن شریک ہوئے، نے برطانیہ کی تاریخی ذمہ داریوں اور موجودہ غفلت کی نشاندہی کی۔ ’’ہماری حکمت عملی یہ رہی ہے کہ برطانیہ میں بلوچ تنظیموں کے ساتھ کام کریں تاکہ پارلیمنٹ کو معلومات فراہم کی جا سکیں اور وزراء پر دباؤ ڈال کر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور وسائل کے استحصال کو روکیں۔‘‘
انہوں نے بین الاقوامی مداخلت کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ ’’ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ گرفتار یا ہلاک ہونے والوں کے نام وزراء کے سامنے پیش کیے جائیں۔ آگاہی بڑھ رہی ہے، لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے اور حقِ خودارادیت کو یقینی بنانے کے لیے مزید پارلیمانی اقدامات ضروری ہیں۔‘‘
جان مکڈونل کی مکمل تقریر : https://thebnm.org/urdu/foreign-department/23909/
محسن داوڑ: پاکستان کے موجودہ آئینی ڈھانچے کے تحت مظلوم اقوام کی بقا ممکن نہیں
محسن داوڑ، رکنِ پارلیمنٹ اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے صدر، نے زور دیا کہ بلوچ، پشتون، سندھی اور دیگر مظلوم اقوام کی بقا پاکستان کے موجودہ آئینی اور وفاقی ڈھانچے کے تحت ممکن نہیں ہے۔ ’’ آئین ایک صوبے کو غیر متناسب طاقت دیتا ہے، جس سے پنجاب کو بالادستی حاصل ہے اور دیگر صوبوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہ کمزور اور ناقص ڈھانچہ ہمارے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتا، ‘‘ انھوں نے اس متعلق بات کرتے ہوئے مظلوم اقوام کو حاشیہ میں دھکیلنے والے ریاستی نظام کا حوالہ دیا۔
انھوں نے بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی اور بتایا کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ گزشتہ 60 دنوں سے اسلام آباد میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ’’ میں نے ذاتی طور پر اپنی پارٹی کی قیادت کے ساتھ ان سے ملاقات کی اور مسلسل جبر کے باوجود ان کے حوصلے کا مشاہدہ کیا۔ بدقسمتی سے، مین اسٹریم سیاسی جماعتیں شاذ و نادر ہی ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں، جو پاکستان کے مظلوم اقوام کے تئیں ان کے رویے کو آشکار کرتا ہے،” انھوں نے سیاسی قیدیوں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
محسن داوڑ کی مکمل تقریر: https://thebnm.org/urdu/foreign-department/23924/
سچائی کی جدوجہد طویل ہو سکتی ہے لیکن ناامید نہیں۔ ریڈ براؤڈی
امریکی انسانی حقوق کے وکیل ریڈ براؤڈی نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ تنہا نہیں ہیں۔ ’’سچائی اور احتساب کے لیے جدوجہد طویل ہو سکتی ہے، لیکن کبھی ناامید نہیں۔ ہمیں بین الاقوامی تحقیقات پر اصرار کرنا چاہیے۔‘‘
انھوں نے جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور خواتین کارکنان کے ہدف بنانے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ’’متاثرین کی آوازوں کی حمایت کریں، احتساب کا مطالبہ کریں، اور جغرافیائی سیاست کو سنگین زیادتیوں کو نظر انداز کرنے کا باعث نہ بننے دیں۔‘‘
ریڈ براؤڈی کی مکمل تقریر : https://thebnm.org/urdu/foreign-department/23921/
ہم ہمدردی نہیں بلکہ اپنے وطن میں امن سے جینے کی آزادی چاہتے ہیں۔ فہیم بلوچ
بی این ایم کے خارجہ سیکریٹری فہیم بلوچ نے واضح کیا کہ یہ جدوجہد پاکستان کے عوام کے خلاف نہیں بلکہ قبضے کے خلاف ہے۔ ’’ہماری جدوجہد اس قبضے کے خلاف ہے جو ہمیں ہمارے حقوق، وقار اور مستقبل سے محروم کرتا ہے۔ ہر قوم کی طرح بلوچ قوم کو بھی خودارادیت اور آزادی کا حق حاصل ہے۔‘‘
انھوں نے جاری منظم تشدد، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل پر بات کی اور اقوام متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ’’بلوچ قوم کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ہم ہمدردی نہیں بلکہ یکجہتی، حقوق کی تشخیص اور اپنے وطن میں امن سے جینے کی آزادی چاہتے ہیں۔‘‘
فہیم بلوچ کی مکمل تقریر : https://thebnm.org/urdu/foreign-department/23927/
ہم مل کر انصاف کے حصول تک اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔ رؤف لغاری
ورلڈ سندھی کانگریس کے رہنما رؤف لغاری نے بلوچستان کی جدوجہد کو پاکستان میں دیگر مظلوم قوموں سے جوڑا۔ ’’مظلوم قوموں جیسے سندھی، بلوچ، اور پشتون کے حقوق کی نفی صرف انسانی المیہ نہیں بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔ قوموں کی یکجہتی انصاف کی آواز کو بلند کرتی ہے۔‘‘
انھوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ مظلوم عوام کی سنیں، عمل کریں اور ان کی حمایت کریں۔ ’’آپ کی جدوجہد ہماری جدوجہد ہے۔ آپ کی آزادی ہماری آزادی ہے۔ ہم مل کر انصاف کے حصول تک اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔‘‘
رؤف لغاری کی مکمل تقریر : https://thebnm.org/urdu/foreign-department/23912/
سیاسی اخراج، اقتصادی استحصال، اور ثقافتی دباؤ مزاحمت کو جنم دیتا ہے۔ ڈاکٹر محمد تقی
کالم نگار ڈاکٹر محمد تقی نے پاکستان کے جبری الحاق اور بلوچستان کی جاری عسکریت پسندی پر روشنی ڈالی۔ ’’اگر ریاست بدمعاشانہ رویہ اختیار کرے تو لوگ پہاڑوں (مسلح جدوجہد ) کی طرف چلے جائیں گے۔ سیاسی اخراج، اقتصادی استحصال، اور ثقافتی دباؤ مزاحمت کو جنم دیتا ہے۔‘‘
انھوں نے مظلوم قوموں کے درمیان ہم آہنگی اور آئینی ضمانتوں کی اہمیت پر زور دیا۔ ’’ہم آئین پر یقین رکھتے ہیں، مگر اسے کمزور کیا گیا ہے۔ حقیقی حکمرانی تمام وفاقی اکائیوں کے احترام کے بغیر اور محض ظلم و ستم سے ممکن نہیں۔‘‘
ڈاکٹر محمد تقی کی مکمل تقریر: https://thebnm.org/urdu/foreign-department/23906/
احتجاج اور تصویری نمائش:
اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر بروکن چیئر کے مقام پر بی این ایم نے احتجاجی کیمپ لگایا اور تصویری نمائش کی، جس میں بلوچستان میں جبری گمشدگان کی تصاویر نمایاں طور پر پیش کی گئیں تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب توجہ مبذول کرائی جا سکے۔
احتجاج میں بی این ایم کے جونیئر جوائنٹ سیکریٹری حسن دوست، سینٹرل کمیٹی کے ممبر حاجی نصیر، یوکے چیپٹر کے صدر ماسٹر منظور، وحید بلوچ اور مہرہ بلوچ نے خطاب کیا۔ انھوں نے پاکستانی ریاست کے مظالم کی مذمت کی، بین الاقوامی کارروائی کا مطالبہ کیا، اور جبری لاپتہ افراد کے لیے انصاف کی اہمیت پر زور دیا۔