بائیں بازو کے اقتدار میں آنے کے باوجود تامل مسئلے پر سری لنکا کا موقف جوں کا توں ہے: نیوتن ننتھا کمار

بی این ایم جرمنی

تامل سیاسی کارکن نیوتن ننتھا کمار نے کہا ہے کہ طویل جنگوں، مظالم اور جغرافیائی فاصلوں کے باوجود عالمی تامل برادری کا عزم کمزور نہیں ہوا اور وہ اپنی شناخت اور مقصد کے لیے آج بھی زندہ ہیں۔

وہ جرمنی کے شہر برلن میں بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے ‘یوم شہدائے بلوچ’ کے موقع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔

نیوتن ننتھا کمار نے بلوچ شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کو اپنے لیے اعزاز قرار دیا۔ انھوں نے تامل اور بلوچ قوموں کی جدوجہد میں مماثلت پیدا کرتے ہوئے کہا کہ تامل قوم بھی اپنے شہداء کو 27 نومبر کو یاد کرتی ہے، جب 1982 میں ان کے پہلے شہید شنکر نے جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اُنھوں نے بتایا کہ ایلام کی جنگوں کے دوران تامل قوم نے 30 ہزار سے 40 ہزار جانوں کا نقصان برداشت کیا۔

انھوں نے اپنی جدوجہد کی جڑوں کا سراغ یورپی نوآبادیاتی دور سے لگاتے ہوئے کہا کہ پرتگالیوں، ڈچ اور پھر برطانوی راج کے بعد جب جزیرے کو ایک انتظامی اکائی میں ضم کیا گیا تو تامل اقلیت میں تبدیل ہو گئے۔

’’ جب سیلون (موجودہ سری لنکا) کو آزادی ملی، تو یہ عدم توازن برقرار رہا — اور جلد ہی سنہالی اکثریت نے تمل عوام پر ظلم و ستم شروع کر دیا۔‘‘

انھوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ آزادی کے فوراً بعد تقریباً دس لاکھ تملوں کو ان کی شہریت سے محروم کر دیا گیا، 1956 میں سنہالا کو واحد سرکاری زبان قرار دیا گیا، اور 1971 میں تامل طلبہ کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ امتیازی قوانین کے ذریعے مشکل بنا دیا گیا۔

نیوتن ننتھا کمار نے واضح کیا کہ تامل عوام نے ابتدا میں پرامن احتجاج کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور حکومت کے ساتھ کئی معاہدے بھی کیے، ’’ مگر کوئی بھی نافذ نہ ہو سکا۔‘‘

اس کے برعکس، انھوں نے کہا، سری لنکن ریاست نے تشدد کا راستہ اپنایا۔ 1956، 1958، اور 1977 میں بڑے پیمانے پر تمل مخالف فسادات ہوئے، اور 1981 میں جافنا پبلک لائبریری کو جلا دیا گیا، جس سے انمول تامل علمی ورثہ تباہ ہو گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ 1976 تک تامل ایک متحد سری لنکا کے اندر حل تلاش کر رہے تھے، لیکن اسی سال انہوں نے ‘وڈککُڈّی قرارداد’ (Vaddukoddai Resolution) منظور کی، جس میں آزاد ‘تمل ایلام’ کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔

’’ 1983 میں ‘سیاہ جولائی’ کے نام سے مشہور تمل مخالف قتلِ عام شروع ہوا… صرف ایک ہفتے میں 5,000 سے زائد تمل مارے گئے، اور اسی کے ساتھ ایلام جنگ کا آغاز ہوا۔‘‘

انھوں نے 1983 سے 2009 تک جاری رہنے والی ایلام جنگوں کے مختلف مراحل پر بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح ابتدا میں بھارت نے سرد جنگ کے تناظر میں تامل گوریلا گروپوں کی مدد کی، لیکن بعد میں انھیں نہتا کرنے کے لیے فوج بھیجی۔

انھوں نے کہا کہ لبریشن ٹائیگرز آف تمل ایلام (LTTE) نے تامل علاقوں پر ایک موثر کنٹرول قائم کیا اور 2002 کے امن مذاکرات میں تامل وطن کے تصور کو جزوی طور پر بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا۔

تاہم، انھوں نے نائن الیون کے بعد بدلتی عالمی سیاست کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ بین الاقوامی حمایت کے ساتھ، سری لنکا نے بالآخر ایک مکمل فوجی کارروائی کے ذریعے تمل ٹائیگرز کو کچل دیا۔‘‘

جنگ کے بعد کے حالات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے چین کی بڑھتی ہوئی اسٹریٹجک دلچسپی اور ہمبن ٹوٹا بندرگاہ کے طویل مدتی لیز کا بھی حوالہ دیا۔

نیوتن ننتھا کمار نے جنگ کے آخری مرحلے کو سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا دور قرار دیتے ہوئے کہا، "صرف چند ماہ میں 1,60,000 سے زائد افراد مارے گئے یا لاپتہ کر دیے گئے۔” اُنہوں نے مزید کہا کہ ریاست نے تامل علاقوں کی زمینیں ضبط کر کے غیر قانونی سنہالی بستیاں قائم کیں اور آج تک جنگی جرائم پر انصاف نہیں ملا۔

جدوجہد جاری ہے

اپنے خطاب کے اختتام پر اُنہوں نے 2022 کے معاشی بحران کا ذکر کیا اور کہا کہ سنہالی بائیں بازو کے رہنماؤں کے اقتدار میں آنے کے باوجود تامل مسئلے پر ریاستی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

اُنہوں نے دنیا بھر میں پھیلی تامل تارکینِ وطن برادریوں کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ برادریاں آج بھی تامل شناخت اور جدوجہد کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

’’ فاصلے اور وقت اس کے عزم کو کمزور نہیں کر سکے۔‘‘

Share This Article