عالمی سندھی کانگریس (ڈبلیو ایس سی) کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر لاکھو لوہانہ نے کہا ہے کہ پنجابی ریاست ہمیں مکمل طور پر ختم کرنے، ہماری شناختیں مٹانے، اور تمام وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ہمیں دس ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے، اور 27ویں ترمیم اسی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔
انھوں نے ان خیالات کا اظہار یومِ شہدائے بلوچ 2025 کے موقع پر برلن، جرمنی میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے زیرِ اہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر لوہانہ نے اپنے خطاب کا آغاز بلوچ شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کیا، جو دہائیوں سے جاری قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا آج ہم بلوچستان کے ان ہزاروں بہترین بیٹوں اور بیٹیوں کو یاد کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جنھوں نے یہ یقین رکھتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں کہ مادر وطن کی آزادی اور وقار کے ساتھ جینا زندگی سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔
سندھی قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ بلوچ شہداء کی ہمت اور قربانی کے احترام میں سر جھکاتے ہیں، اور سندھی قوم اس جدوجہد میں بلوچ قوم کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔
انھوں نے نشاندہی کی کہ بلوچستان کئی دہائیوں سے زیرِ تسلط ہے، جس دوران تین نسلیں پروان چڑھی ہیں۔ اس قبضے کے نتیجے میں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اجتماعی قبریں، اور ثقافتی نسل کشی جیسے مصائب نے جنم لیا ہے۔
ڈاکٹر لوہانہ نے پنجابی ریاست کردار کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا انھوں (پنجابی ریاست) نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ہمیں مکمل طور پر ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ نسل کشی کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق، وہ ‘انسانیت کے خلاف جرائم’ کا معمولی سا کم جرم نہیں، بلکہ نسل کشی کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سندھی اور بلوچ قومیں ہزاروں سال کے تاریخی اور جغرافیائی تعلقات کی وجہ سے ایک ہی قوم ہیں اور دونوں قومیں یکساں محکومیت کا سامنا کر رہی ہیں۔
انھوں نے سندھ کی صورتحال واضح کرتے ہوئے کہا وہ (قابض ) سندھ کی زمین اور اس کے وسائل کے لالچی ہیں۔ وہ سب کچھ چھیننا چاہتے ہیں: ہماری زمینیں، ہمارے وسائل، ہمارا سمندر، ہمارا پانی، ہماری زبان۔
انھوں نے خبردار کیا کہ ہم ایک مشکل مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں کیونکہ قابض قوت نے ہمیں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا: "وہ اس 27ویں ترمیم کو اسی کا ایک حصہ بنا کر لا رہے ہیں۔
ڈاکٹر لوہانہ نے کہا کہ آج کا اجتماع اس بات کا ثبوت ہے کہ شہداء کی قربانیوں کو بھلایا نہیں جا رہا، اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
انھوں نے رہنماؤں پر زور دیا کہ یہ شہداء کی قربانیوں کا قرض ہے، اور ہمیں اجتماعی دانشمندی کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر انھوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ظلم ہمیشہ غالب نہیں آ سکتا۔ انھوں نے مشترکہ طور پر آواز بلند کرنے اور جدوجہد کو مضبوط کرنے کی اپیل کی تاکہ شہداء کا خواب حقیقت بن سکے اور دونوں قومیں اپنی آزاد مادر وطن میں وقار کے ساتھ جی سکیں۔
