ایمسٹرڈیم : بی این ایم نیدر لینڈز چیپٹر کی جانب سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی کے خلاف نیدر لینڈز کے شہر ایمسڑڈیم ڈیم اسکوائر پہ احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں پارٹی کارکنان نے شرکت کی۔بازاروں میں پمفلٹ تقسیم کیے گئے اور انھیں مختلف مقامات پر آویزاں کیا گیا۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم ہالینڈ چیپٹر کے رکن جمال بلوچ نے کہا مہذب دنیا کو بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف وزری ، مرد ،خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے ۔یورپی یونین کے عوام اپنے نمائندوں سے سوال کرئے کہ آخر وہ کس بنیاد پہ ایک دہشتگرد ملک کو سپورٹ کررہے ہیں۔اس وقت بلوچستان میں مرد ،خواتین اور بچوں کو روزانہ کی بنیاد پہ پاکستانی فورسز جبری گمشدگی کا نشانہ بناتا ہے۔ ہم یورپی یونین ،انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہے کہ وہ بلوچستان میں بلوچ نسل کشی پہ نوٹس لے۔
بی این ایم ہالینڈ کے ممبر اسلام مراد نے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستانی فورسز پہلے مردوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بناتی تھیں لیکن اب کچھ سالوں سے خواتین اور بچوں کو بھی جبری گمشدگی کا شکار بنارہے ہیں۔بلوچستان کے علاقے ھوشاپ سے بلوچ خاتون نور جان کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیا تھا۔پاکستانی فورسز ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ خواتین کو نشانہ بنارہی ہیں، 3 فروری کو بلوچستان کے مرکزی شہر شال سے رشیدہ زھری کو بچوں سمیت جبری لاپتہ کردیا گیا جو کہ بغیر کسی جرم میں 13 دن تک پاکستانی ٹارچر سیلوں میں قید رہی۔اب پاکستانی فورسز نے شال سے ماھل بلوچ کو بچوں سمیت جبری گمشدگی کا شکار بنایا، جو تاحال پاکستانی ٹارچر سیلوں میں اذیت سہی رہی ہیں انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزی پہ سختی سے نوٹس لیں، اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے ممبر نبیل بلوچ نے کہا ہم آج اس لیے یہاں اکٹھے ہوئے ہے کہ دنیا بلوچستان میں بلوچ نسل کشی کے خلاف آواز اٹھائے۔ 75 سالوں سے بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی جانب سے نسل کشی کی جارہی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مرد، خواتین بچے جبری طور پہ لاپتہ ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے اہل خانہ آج بھی سراپا احتجاج ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں۔بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی جانب سے شہریوں کے تمام حقوق کی خلاف ورزی روز کا معمول ہیں۔ ہزاروں بلوچ پاکستان کی خفیہ ٹارچر سیلوں میں قید ہیں جہاں انھیں انتہائی غیر انسانی تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حراست میں دوران تشدد ہزاروں افراد شہید بھی ہوئے ہیں۔ ہزاروں ’’مارو اور پھینکو‘‘ پالیسی کا نشانہ بن چکے ہیں۔
انھوں نے کہا ہم تمام متعلقہ اداروں اور مہذب دنیا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے مقامی باشندوں کے لیے آواز بلند کریں۔ ہمیں نسل کشی ے محفوظ کریں اور ہماری آزادی کو دوبارہ حاصل کرنے میں ہماری مدد کریں۔