پاکستان کے جبر سے ہمارے دلوں میں آزادی کی تڑپ مزید بڑھتی ہے – ڈاکٹر نسیم بلوچ

ڈاکٹر نسیم بلوچ

بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے زیرِ اہتمام جرمنی کے دارالحکومت برلن میں بلوچ شہداء کے دن کی مناسبت سے ایک تقریب منعقد ہوئی، جس میں پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ پاکستان ہمیں گولیوں سے خاموش کرنا چاہتا ہے، مگر اس کے جبر نے ہمارے دلوں میں آزادی کی تڑپ کو اور گہرا کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 27 مارچ 1948 کو پاکستانی فوج نے توپوں کے زور پر بلوچستان پر قبضہ کیا۔ آج ہمارے دیس میں فوجی کیمپ، نگرانی کے مینار اور خوف کا راج ہے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے، تاہم بلوچ قوم مزاحمت سے پیچھے نہیں ہٹی۔

چیئرمین بی این ایم نے اپنی جماعت کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بلوچ جدوجہد جذبے کی صورت میں موجود تھی، مگر اس میں تنظیم اور حکمتِ عملی کا فقدان تھا۔

’’ بی این ایم نے منتشر جذبات کو منظم مزاحمت میں ڈھالا، بلوچ سیاست کو قبائلی و ذاتی مفادات سے نکال کر قومی مفاد کے محور پر استوار کیا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ نے قربانی کو فلسفہ اور جدوجہد کو اجتماعی فرض بنا دیا، جس کی بدولت آج بلوچ تحریک فکری، سیاسی اور تنظیمی بنیادوں پر مضبوط ہے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے مختلف بلوچ رہنماؤں اور کارکنان کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا، جن میں خان مِھراب خان، غلام محمد بلوچ، ڈاکٹر منان بلوچ، بانک کریمہ بلوچ، استاد علی جان، حاجی رزاق اور زبیر بلوچ شامل ہیں۔

’’ یہ جنگ بندوقوں کی نہیں، ایمان کی ہے — اور تاریخ ہمیشہ ایمان کے آگے سر جھکاتی ہے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ اگرچہ برطانوی پرچم اب بلوچستان پر نہیں لہراتا، مگر غلامی کی زنجیریں ایک نئی شکل میں لوٹ آئی ہیں۔

’’ آج بلوچستان پر لندن نہیں، اسلام آباد کا قبضہ ہے۔‘‘

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اپنے خطاب میں 13 نومبر 1839 کے تاریخی پس منظر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسی روز برطانوی فوج نے کلات کا محاصرہ کیا تھا، جہاں خان مِھراب خان نے غلامی کے بجائے شہادت کو ترجیح دے کر بلوچ مزاحمت کی بنیاد رکھی۔

’’ خان مِھراب خان کے پاس توپیں نہیں تھیں، مگر شعور کی طاقت تھی — اور شعور سے لیس قوم کبھی نہیں مٹتی۔‘‘

اپنے خطاب کے اختتام پر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم کی جدوجہد صرف اپنی سرزمین کے لیے نہیں بلکہ انسانی وقار اور انصاف کے لیے ہے۔

’’ ہماری زبانیں مختلف ہیں، مگر زخم ایک جیسے ہیں — لہٰذا ہماری آواز بھی ایک ہونی چاہیے، ظلم کے خلاف اور آزادی کے لیے متحد۔‘‘

انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ بلوچ مزاحمت جاری رہے گی، اور کہا بلوچستان کی آزادی ہمارا وعدہ ہے — ایک وعدہ جو مِھراب خان سے زبیر بلوچ تک شہداء کے خون سے لکھا گیا ہے۔

یہ تقریب بی این ایم کی جانب سے روایتی طور پر منائے جانے والے بلوچ یومِ شہداء کی مناسبت سے منعقد کی گئی۔ تقریب میں بلوچ، پشتون، سندھی، کرد، اور تامل برادریوں کے نمائندوں سمیت انسانی حقوق کے کارکنان نے بھی شرکت کی۔

Share This Article