بی این ایم انٹرنیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ پاکستان کی ریاست بلوچستان پر جبری قبضے کے بعد مسلسل نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کی جانب سے نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں ’ مسئلہ بلوچستان : حق خود ارادیت اور عالمی خاموشی ‘ کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں انسانی حقوق کے کارکنان، صحافی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا تھا۔
بلوچستان میں بڑے پیمانے پر مظالم کے باوجود عالمی ادارے محض تماشائی ہیں ۔ ڈاکٹر نسیم بلوچ

اس موقع پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بی این ایم نے کہا کہ ہزاروں بلوچ شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے ، ان میں سے کئی افراد کی مسخ شدہ لاشیں ویران علاقوں سے برآمد ہوئیں، جب کہ درجنوں دیہات کو زمینی و فضائی حملوں کے ذریعے ملیا میٹ کر دیا گیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر مظالم کے باوجود اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی ادارے محض تماشائی بنے ہوئے ہیں، جو کہ انسانی حقوق کی عالمی اقدار کے منافی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بلوچ قوم پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، وہ نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں بلکہ ایک منظم نسل کشی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ انھوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم اپنی بقا، آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کر رہی ہے، اور دنیا کو چاہیے کہ وہ ان کی آواز سنے، ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرے اور پاکستان کو انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرائے۔
ریاست منظم منصوبے کے تحت ہمارے فطری وسائل لوٹ رہی ہے۔ زلی ولی ، پی ٹی ایم

پشتون تحفظ موومنٹ کی کارکن زلی ولی نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں جاری ریاستی جبر اور بربریت کی شدید مذمت کی۔ انھوں نے کہا کہ بلوچ اور پشتون اقوام کے ساتھ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے، جہاں ایک طرف ہمارے نسل کشی جاری ہے، وہیں دوسری جانب ریاست منظم منصوبے کے تحت ہمارے کے فطری وسائل کو بے دردی سے لوٹ رہی ہے۔وزیرستان میں گاؤں کے گاؤں ویران کیے جا رہے ہیں، نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے، اور ان علاقوں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ عوام کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جائے۔
انھوں نے کہ بلوچ اور پشتون اقوام تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی رشتوں سے بندھی ہوئی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی، اخلاقی اور سفارتی میدانوں میں مضبوطی سے کھڑے ہوں۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی ایم ہر اس فورم پر بلوچ قوم کے ساتھ کھڑی ہے جہاں مظلوموں کی آواز دبائی جا رہی ہو۔
انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ و پی ٹی ایم بلوچ قوم کی آزادی کے جدوجہد کو اپنی جدوجہد کا حصہ سمجھتی ہے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہے گی، چاہے میدان کوئی بھی ہو ، انسانی حقوق کا فورم ہو، بین الاقوامی ادارے ہوں یا عوامی تحریکوں کا پلیٹ فارم ہم ہمیشہ بلوچ قوم کے ساتھ ہیں۔
ریاست نہ صرف بلوچوں کی زبان بندی کررہی ہے بلکہ ہمارے سیاسی وجود کو بھی مٹانا چاہتی ہے ۔ فہیم بلوچ، فارن سیکریٹری بی این ایم

بی این ایم کے فارن سیکریٹری فہیم بلوچ نے بلوچستان کی صورتحال انسانی بحران اختیار کرچکا دیا۔ شاید وہ الفاظ تلاش نہ کر سکیں جو بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی کی شدت اور سنگینی کو مکمل طور پر بیان کر سکیں، کیونکہ جو کچھ وہاں ہو رہا ہے، وہ انسانی المیے کی تمام حدوں کو پار کر چکا ہے۔
اس جدید دور میں، جہاں دنیا ڈیجیٹل ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہی ہے، جہاں بلوچستان کو انٹرنیٹ اور مواصلاتی سہولیات سے بلکل محروم رکھا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش کوئی اتفاقیہ عمل نہیں بلکہ ریاست کی جانب سے بلوچ عوام کو خاموش رکھنے، ان کی آواز کو دنیا تک پہنچنے سے روکنے اور وہاں ہونے والے مظالم کو چھپانے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ پاکستانی ریاست نہ صرف بلوچوں کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہماری شناخت، زبان، ثقافت اور سیاسی وجود کو بھی مٹانے پر بھی تلی ہوئی ہے۔
انھوں نے عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ بلوچستان کی موجودہ صورتحال کا سنجیدہ نوٹس لیں۔ فہیم بلوچ نے کہا کہ اگر دنیا واقعی انسانی حقوق کے عالمی اصولوں پر یقین رکھتی ہے تو اب وقت آ چکا ہے کہ وہ دوہرا معیار ترک کر کے بلوچ قوم کے ساتھ کھڑی ہو، اور ریاستی جرائم کے خلاف مؤثر اور عملی قدم اٹھائے۔
بلوچستان منظم ظلم کی تصویر جسے نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں رہا ۔ شارت زہرے ، کارکن انسانی حقوق
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کارکن شارلٹ زہرے نے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض چند واقعات نہیں بلکہ ایک منظم ظلم و جبر کی تصویر ہے، جسے نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں رہا۔
انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کی خاموشی اس بربریت کو مزید طاقت دے رہی ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں، لیکن جب بات بلوچستان کی آتی ہے، تو ان دعووں کی حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔ اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ظلم ہو رہا ہے اور دنیا نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
انھوں نے عالمی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور ضمیر رکھنے والے ہر فرد سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچ عوام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں، ان کی آواز سنیں، اور اس ناانصافی کے خلاف مؤثر اور عملی قدم اٹھائیں، تاکہ بلوچ قوم کو انصاف مل سکے اور انسانیت کا بھرم قائم رہے۔
تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کبھی دیرپا نہیں ہوتا ، مظلوموں کی آواز سرحدیں پار کرجاتی ہیں۔اینڈی ورماؤٹ

صحافی اینڈی ورماؤٹ نے بلوچستان کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہاں نہ صرف سیاسی کارکن بلکہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والا فرد پاکستانی فورسز کے جبر کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی ایک المناک حقیقت ہے، جس سے انکار ممکن نہیں، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مظلوموں کی آواز دبانے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
سچ لکھنے اور حقائق سامنے لانے کی پاداش میں کئی بلوچ صحافیوں کو یا تو قتل کر دیا گیا، یا شدید ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی صحافیوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا، اور بہت سے آج بھی گمنامی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان جیسے خطے میں آزاد صحافت کا تصور خود ایک مزاحمت بن چکا ہے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا انسانیت کا فرض ہے، چاہے وہ ظلم بلوچ قوم پر ہو یا پشتون قوم پر، خاموشی کسی مسئلے کا حل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کبھی دیرپا نہیں ہوتا — جبر جتنا بھی مضبوط ہو، آخرکار سچ غالب آتا ہے، اور مظلوموں کی آواز سرحدیں پار کر جاتی ہے۔
اینڈی نے عالمی صحافتی برادری، انسانی حقوق کے اداروں اور باشعور افراد سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں جاری ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور ان لوگوں کا ساتھ دیں جو حق و انصاف کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔
بلوچ قوم نے ہمیشہ مظالم اور غلامی کو مسترد کیا ، آج بھی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ وحید بلوچ
بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) نیدرلینڈز چیپٹر کے نائب صدر وحید بلوچ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ایک زمانے میں ایک آزاد ریاست تھا، جہاں لوگ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے تھے، اپنی زبان، ثقافت اور شناخت پر فخر کرتے تھے، اور ہر فرد کو اپنے طرزِ زندگی پر مکمل اختیار حاصل تھا۔ تاہم، پاکستان کے جبری قبضے کے بعد بلوچ قوم سے نہ صرف اس کی سیاسی آزادی چھین لی گئی، بلکہ اس کی زبان، ثقافت، اور قومی تشخص کو بھی منظم انداز میں ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
بلوچ قوم نے ہمیشہ ظلم اور غلامی کو مسترد کیا ہے اور آج بھی اپنی آزادی، شناخت اور خودمختاری کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ ہماری مزاحمت آزادی بلوچستان تک جاری رہے گی۔
ڈچ حکومت اور عوام بلوچ قوم کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ محمد مہیم

کانفرنس سے ڈچ زبان میں خطاب کرتے ہوئے محمد مہیم نے کہا کہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک سنگین انسانی بحران ہے، جسے عالمی برادری مزید نظر انداز نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اور اظہارِ رائے پر پابندی جیسے اقدامات کسی بھی مہذب دنیا کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔عالمی اداروں، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کی صورتحال کا فوری نوٹس لیں اور وہاں ہونے والے مظالم کے خلاف عملی اور مؤثر اقدامات اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی خاموشی نہ صرف ظالم کو مزید طاقت دیتی ہے بلکہ مظلوم کے زخموں پر نمک بھی چھڑکتی ہے۔انہوں نے ڈچ عوام اور حکومت سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق، انصاف اور آزادی کے عالمی اصولوں کی روشنی میں بلوچ قوم کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں۔
جمال بلوچ اور زھرہ بلوچ کانفرنس کے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔