مقبوضہ بلوچستان کے عوام پاکستان کے زیر اثر مذہبی دہشت گردی اور گندے ایٹمی پروگرام سے متاثر ہیں، بی این ایم کا امریکا میں 28 مئی کا کمپئن

بی این ایم یو ایس اے

بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) دنیا کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ مقبوضہ بلوچستان کے عوام نہ صرف پاکستانی فوج کے براہ راست حملوں کا شکار ہیں بلکہ اس کی غیر روایتی پالیسیوں — جیسے کہ مذہبی دہشت گردی — اور "گندے ایٹمی پروگرام” سے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

ان کا خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کی طرف سے امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس اور امریکا محکمہ خارجہ کے سامنے اور واشنگٹن اسٹیٹ میں بیک وقت آگاہی مہم چلائی گئی۔ بی این ایم امریکہ چیپڑ کے صدر سمیع بلوچ کی سربراہی میں اس مہم کے دوران پارٹی کی طرف سے 28 مئی کے حوالے سے جاری کردہ پمفلٹ تقسیم کیا گیا۔ اس مہم میں محمد حسن اور بی این یم واشنگٹن اسٹیٹ کے دیگر ممبران نے بھی حصہ لیا۔

28 مئی کو بی این ایم کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بلوچستان میں ماحولیاتی اثرات اور خطے پر سیاسی اثرات کے بارے میں منظم اور مربوط مہم چلائی گئی جس کے تحت امریکا کے علاوہ جرمنی اور نیدرلینڈز میں بھی احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔ جبکہ بلوچستان کے کئی علاقوں بشمول گوادر ، تربت اور ان شہروں کے ملحقہ قصبات اور گاؤں پشوکان ، کلدان ، کلاتک ، شئے کھن، نودز اور ناصر آباد میں پمفلٹس تقسیم کیے گئے۔بی این ایم کے پمفلٹس وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل ذرائع سے تقسیم کیے جاتے ہیں تاہم پارٹی وقتا پہ وقتا بلوچستان کی عوام کے درمیان اپنی موجودگی کے اظہار کے لیے شہروں کے اندر بھی محدود پیمانے پر روایتی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے چاکنگ اور پمفلٹنگ کرتی ہے ، جو کہ ڈیرہ غازی خان سے لے کر جیمڑی تک کیے جاتے ہیں۔

دراین اثناء امریکا میں ہوئے مہم کے دوران اس طرف بھی توجہ دلایا گیا کہ کوہِ سلیمان کے لوگ بھی ایٹمی تابکاری کے باعث مختلف اقسام کے کینسر اور ڈی این اے کو نقصان پہنچانے والی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں جہاں سے یورنیم کی کاکنی کی جاتی ہے اور ڈیرہ غازی خان کے آباد علاقے بغلچور میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ایٹمی فضلہ ڈمپ کرتی ہے۔ غیرجانبدار ذرائع نے بھی اس معاملے کا جائزہ لینے کے لیے ایک آزاد انکوائری کمیشن مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے ، جس پر تاحال کوئی عملدرامد نہیں کیا گیا۔

امریکا میں بی این ایم کےممبران نے واشنگٹن میں عوامی رابطے کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کیا کہ 1998 سے پہلے پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے قرار دیتا تھا، لیکن جیسے ہی اسے موقع ملا، پاکستان کی خفیہ فوجی حکومت نے اپنے "گندے عزائم” کو بے نقاب کرتے ہوئے 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے ضلع چاغی میں اور 30 مئی 1998 کو صحرائے خاران میں مقامی آبادی کو بتائے اور ان کے انخلا کا بندوبست کیے بغیر چھ غیر قانونی ایٹمی تجربات کیے۔دعوی کیا جاتا ہے کہ تابکاری اثرات زیرزمین ہونے کی وجہ سے نہیں پھیلے اور اس پر سائنسی فکشن کے انداز میں خوبصورتی سے پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پاکستان کے جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا دستاویزی ثبوت اور ویڈیوز موجود ہیں کہ ایٹمی دھماکے سے راسکوہ کی چوٹی پر شعلے بھڑک اٹھے اور تابکاری اثرات کی وجہ سے اس کا بھورا رنگ خاکستری ہوگیا۔ ان تجربات کے بعد، چاغی اور خاران کے ماحول کو براہ راست ایٹمی تابکار مواد کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے ان علاقوں کے مرد، خواتین اور بچے خون کے سرطان (لیوکیمیا)، مختلف اقسام کے کینسر، اور تھیلیسیمیا جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔تابکاری سے متاثرہ علاقوں میں شرح پیدائش بھی نمایاں طور پر کم ہو چکی ہے۔

Share This Article