جنیوا، سوئٹزرلینڈ – بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بی این ایم کی پانچویں بلوچستان بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ بلوچستان کا نام سنتے ہیں تو آپ نقشے پر ایک خطہ، ایک جگہ سوچ سکتے ہیں۔ لیکن بلوچستان صرف جغرافیہ سے بڑھ کر ہے – یہ امیدوں اور زندگیوں کا قبرستان بن چکا ہے، جہاں انسانیت کی مسلسل خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) نے پانچویں بلوچستان انٹرنیشنل کانفرنس کا کامیابی سے انعقاد کیا، یہ ایک اہم تقریب ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کو درپیش جاری مظالم کے بارے میں عالمی سطح پر شعور اجاگر کرنا ہے۔ جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں بین الاقوامی کارکنوں، اسکالرز، اور بی این ایم کے اراکین نے شرکت کی، جو کہ آزادی اور انسانی حقوق کے لیے بلوچ جدوجہد پر روشنی ڈالنے کے لیے متحد ہیں۔
"جلاوطنی: ایک مسلط کردہ حقیقت، انتخاب نہیں”
اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بلوچستان کے دیہی علاقوں میں ایک معالج ہونے سے لے کر فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے تک کے اپنے سفر کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی نقل مکانی ایک بہتر زندگی کی رضاکارانہ تلاش نہیں تھی بلکہ پاکستانی ریاست کے وحشیانہ جبر سے نجات کے لیے ضروری تھی۔
انھوں نے اعلان کیا کہ ’’ میں یہاں ہمدردی حاصل کرنے یا اپنے ذاتی دکھ سنانے نہیں آیا ۔میں یہاں اپنے لوگوں، بلوچ قوم کی داستان سنانے کے لیے کھڑا ہوں، جن کا المیہ بلوچستان سے باہر پشتون، سندھی، گلگت بلتستان اور کشمیریوں میں گونجتا ہے۔‘‘
’’ بلوچستان: جغرافیہ سے زیادہ امیدوں کا قبرستان ‘‘
اپنی تقریر میں، ڈاکٹر بلوچ نے بلوچستان کی حالت زار پر روشنی ڈالی، انھوں نے کہا ’’ بلوچستاں جغرافیہ سے بڑھ کر، امیدوں اور زندگیوں کا قبرستان بن گیا ہے، جہاں انسانیت کی مسلسل خلاف ورزی کی جاتی ہے۔‘‘ انھوں نے خطے میں پاکستان کی فوجی کارروائیوں کی بھیانک تصویر کشی کی، جہاں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اور مسخ شدہ لاشوں کی دریافت ایک خوفناک حقیقت بن چکی ہے۔
انھوں نے مستونگ کے بدنام زمانہ ‘نامعلوم لاشوں کے قبرستان’ کے بارے میں بات کی، جہاں ریاستی تشدد کا نشانہ بننے والے نامعلوم افراد کو ان کے اہل خانہ کے لیے عزت، انصاف یا بندش کے بغیر دفن کیا جاتا ہے۔ ’’ کیا انسانی حقوق کا احترام کرنے والی ریاست اس طرح برتاؤ کر سکتی ہے؟ ‘‘ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے اقدامات دہشت گرد ریاست کی عکاسی کرتے ہیں۔
’’ پاک چین تعاون کے عالمی مضمرات ‘‘
ڈاکٹر بلوچ نے خطے میں چین کی مداخلت کی طرف بھی اشارہ کیا، خاص طور پر اس کے اسٹریٹجک منصوبوں سے جو بلوچ قوم کے حقوق کو مجروح کرتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کے ساتھ چین کا تعاون صرف ایک اندرونی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے عالمی اثرات ہوں گے، خاص طور پر علاقائی طاقت اور آبنائے ہرمز پر کنٹرول کو نشانہ بنانے والے منصوبوں کی وجہ سے۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ بلوچستان کے حوالے سے پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات سے پردہ اٹھائے۔ "بلوچ قوم کو ان کی اپنی زمین اور وسائل کے حوالے سے ہر فیصلے سے باہر رکھا گیا ہے۔”
’’ ہماری جدوجہد آزادی کے لیے ہے، صرف انسانی حقوق کے لیے نہیں ‘‘
بلوچ رہنما نے زور دے کر کہا کہ بلوچ جدوجہد صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر قومی آزادی کی جدوجہد ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس وقت تک ختم نہیں ہوں گی جب تک ہم اپنی جائز آزادی حاصل نہیں کر لیتے۔
انھوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بلوچ قوم کے آزادی کے مطالبے کی حمایت کرے، یہ ذکر کرتے ہوئے کہ بلوچستان کبھی ایک آزاد اور خودمختار ریاست تھا۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان کی آزادی کی جنگ صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی انصاف کا سوال ہے، جو کہ پشتونوں، سندھیوں اور کشمیریوں سمیت دیگر مظلوم اقوام کی جدوجہد سے جڑا ہوا ہے۔
’’ ہم آزاد ہونے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ‘‘
تقریر کا اختتام مظلوم اقوام اور بین الاقوامی اتحادیوں کے درمیان اتحاد کی دعوت پر ہوا۔ ڈاکٹر بلوچ نے زور دے کر کہا کہ بلوچ مزاحمت، جو دو دہائیوں سے جاری ہے، اس وقت تک جاری رہے گی جب تک بلوچستان قبضے سے آزاد نہیں ہو جاتا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک ہم آزاد نہیں ہو جاتے۔ ’’ آزاد بلوچستان کی جدوجہد زندہ باد۔‘‘
مکمل تقریر پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک پر جائیں :
پانچویں بلوچستان انٹرنیشنل کانفرنس نہ صرف بلوچ قوم کی حالت زار کو اجاگر کرنے بلکہ مختلف مظلوم گروہوں کے درمیان یکجہتی کو فروغ دینے اور ان اہم مسائل کے حل میں عالمی برادری کو شامل کرنے کا ایک پلیٹ فارم تھا۔