جدوجہد میں شہید ہونے والے عالم و فاضل ، عظیم کردار اگر دشمن نے قتل نہ کیے ہوتے تب بھی ان کی عظمت کم نہ ہوتی۔شہادت ایک طرف قوم کے لیے فخر کا باعث ہے لیکن دوسری طرف نقصان بھی ہے۔شہداء ان ہی میں سے ہیں جو آج بلوچ کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ہمیں ان کی قربانیوں کی قدر کرنی ہے، انھیں عزیز رکھنا ہے اور ان کی مدد کرنی ہے۔
یہ باتیں بلوچ قومی شہداء کے دن کے موقع پر بی این ایم مشکے آواران ھنکین کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے سیکریٹری اطلاعات و ثقافت قاضی داد محمد ریحان ، مرکزی کمیٹی کے ممبر چیف اسلم بلوچ، ھنکین کے صدر استاد مھران اور زْرمبش براھوئی کے ایڈیٹر فرحان نے کیں۔ تقریب کی نظامت کی ذمہ داری ھنکین کے نائب صدر تلار ناز نے انجام دی۔
قاضی ریحان نے کہا بلوچ شہداء شہرت حاصل کرنے کے لیے شہید نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے بلوچ مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے سروں کی قربانیاں دیں۔ان کی کوشش تھی کہ بلوچ طاقتور اور اس کے دشمن کمزور ہوں۔دشمن تب کمزور ہوں گے جب ہمارے نقصان کم اور دشمن کے زیادہ ہوں۔اس لیے جہدکار کوشش کرتے ہیں کہ اپنے نقصان کو کم سے کم رکھیں اور دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچائیں۔ جب جنگ ناگزیر ہوتی ہے تو جنگ سے پیچھے ہٹنا اور سر جھکانا ہی سب سے بڑا نقصان ہوتا ہے لیکن جنگ میں جیت بھی ضروری ہے۔ ہم اپنے سروں کی حفاظت کریں اور زندہ رہیں۔خوشحال زندگی ، آزادی اور اپنے نظریات کی کامیابی کی جنگ میں اگر کوئی سر قربان ہوتا ہے تو وہ شہید ہے۔
قاضی ریحان کے خطاب کو یوٹیوب پر سنیں:
چیف اسلم نے کہا ہم میں سے کوئی شہید ہو تو ہم اسے خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اس کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں لیکن یہی ہمارے ساتھی ہیں جو بلوچ اور بلوچستان کے لیے اپنے سروں کو قربان کر رہے ہیں۔ اقوام کی زندگی میں آزادی ضروری ہے اور آزادی کے لیے سروں کی پرواہ نہ کرنا بلوچ کی روایت ہے۔جب بلوچوں کے بادشاہ خان محراب خان انگریزوں کے سامنے لڑنے کے لیے نکلے تو وہ جانتے تھے کہ جنگ موت لے کر آتی ہے لیکن وہ اپنی آزادی سے دست بردار ہونے کو تیار نہ ہوئے اور اپنا سر قربان کیا۔
استاد مھران اور فرحان نے 13 نومبر کے تاریخی پس منظر پر بات کی ، انھون نے کہا انگریزوں نے بلوچ قوم کو بیحد نقصان پہنچایا ہے۔بلوچوں کے بادشاہ خان محراب خان نہیں چاہتے تھے کہ انگریز بلوچ سرزمین سے گزر کر افغانستان پر حملہ کرئے اس لیے انھوں نے ہر مقام پر انگریزوں پر حملے کیے۔انگریز اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک محراب خان زندہ ہیں وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔اس لیے انھوں نے آزاد بلوچستان کے دارلحکومت کلات پر حملہ کیا اور بلوچوں کے بادشاہ محراب خان سینکڑوں ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوئے۔ اس دن سے لے کر آج تک بلوچ اپنی آزادی کے لیے اپنا خون بہا رہا ہے۔