اگر ریاست غنڈے کی طرح برتاؤ کرے گی تو لوگ پہاڑوں کا رُخ کریں گے۔ ڈاکٹر محمد تقی کا ساتویں بلوچستان کانفرنس سے خطاب

خارجہ ڈیپارٹمنٹ

معروف کالم نگار ڈاکٹر محمد تقی نے ساتویں بین الاقوامی بلوچستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا 1948 میں بلوچستان کا پاکستان میں الحاق متنازع اور جبری تھا، جس میں خودمختاری کے وعدے پورے نہ ہوئے۔

انھوں نے جنیوا میں بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے زیر اہتمام ہوئے مذکورہ کانفرنس میں بلوچستان میں انسانی حقوق اور سیاسی محرومیوں تذکرہ کرتے ہوئے کہا یہ وسیع خطہ، جس کے لوگ اپنی شان دار تاریخ اور تہذیب کے حامل ہیں، کئی دہائیوں سے تنازع، محرومی اور اذیت کا شکار ہے۔ جب ہم ستمبر 2025 میں یہاں کھڑے ہیں، صورتحال فوری غوروفکر اور عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ پانچ ہزار سے زائد افراد جبری طور پر لاپتہ کیے جا چکے ہیں، سینکڑوں سیاسی قیدی ہیں، درجنوں گوریلا جنگ میں مارے گئے ہیں، اور ہزاروں لوگ فوجی کارروائیوں کے باعث بے گھر ہو چکے ہیں۔

انھوں نے کہا ایران اور پاکستان دونوں بلوچستان کے بے پناہ وسائل—معدنیات، گیس، گہرے سمندری بندرگاہیں—پر قابض ہیں، مگر کبھی عوام کی مرضی اور خواہشات کا احترام نہیں کیا گیا۔ 1948 میں بلوچستان کا پاکستان میں الحاق متنازع اور جبری تھا، جس میں خودمختاری کے وعدے پورے نہ ہوئے۔ گزشتہ 78 برس میں کچھ نہیں بدلا۔ 1950ء، 1960ء، 1970ء اور 2000ء کی دہائی میں کئی مسلح تحریکیں سیاسی محرومی، معاشی استحصال اور ثقافتی دباؤ کے نتیجے میں ابھریں۔ اسی کے ساتھ ایک پُرامن بلوچ سیاسی جدوجہد 1947 سے جاری ہے۔ ایک ذمے دار ریاست ان جائز سیاسی نمائندوں سے بات چیت کرتی تاکہ اس سلگتے مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔ لیکن اسلام آباد اور راولپنڈی نے ہمیشہ من پسند حکمران مسلط کیے، عوام کو بے اختیار اور اجنبی بنا دیا۔

ہم یہاں سیاسی لوگ جمع ہیں، سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے۔ لیکن پاکستان کی جعلی جمہوریت میں بڑی سیاسی جماعتیں—جو پنجاب اور اس کے اشرافیہ کے زیرِ اثر ہیں—نے ذمہ داری سے آنکھیں چرا لی ہیں، اور فوج کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ سندھ، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور کراچی میں بھی اختلاف کو کچلے۔ فوج ہر مسئلے کو ہتھوڑے سے ٹھوکنے والی کیل سمجھتی ہے۔ یہ حکمرانی نہیں، جبر ہے۔ ‘‘

انھوں نے کہا آج پاکستان عملاً مارشل لا کے تحت چل رہا ہے۔ نام نہاد "ہائبرڈ نظام” محض ایک پردہ ہے۔ فوج ایگزیکٹو، پارلیمنٹ اور عدلیہ کو کرنلوں اور بریگیڈیروں کے واٹس ایپ آرڈرز کے ذریعے قابو میں رکھتی ہے۔ صوبائی اسمبلیوں میں سخت گیر قوانین بغیر بحث کے پاس کیے جاتے ہیں، جبری گمشدگیوں کو قانونی جواز ملتا ہے اور میڈیا آنکھیں بند کر لیتا ہے۔

ڈاکٹر محمد تقی نے کہا یہ ناکارہ نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ اپنے بوجھ تلے خود گر جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کب، نہ کہ اگر۔ پاکستان کے اندر چھوٹی قوموں کو اس ناگزیر وقت کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ ہمیں سندھی، بلوچ، پشتون، سرائیکی، کشمیری اور مہاجر قیادتوں کو ساتھ بٹھا کر ایک مشترکہ کم از کم ایجنڈا ترتیب دینا ہوگا۔

انھوں نے کہا ہم آئین پر یقین رکھتے ہیں—ہمارے بزرگوں نے اسے تشکیل دیا۔ لیکن پاکستان فوج نے ہمیشہ اسے کمزور کیا ہے، خصوصاً 18ویں ترمیم کو، جو چھوٹی اکائیوں کو حقوق دیتی ہے۔ فوجی سربراہوں نے اسے کھلم کھلا ’’ زہریلا ‘‘ کہا ہے۔ یہ آئین دشمنی ظاہر کرتی ہے کہ اصل میں کون پاکستان کی وفاقیت کو ماننے سے انکاری ہے۔

کالم نگار نے مزید کہا آج فوج طاقت کے نشے میں چور ہے، اور نہ صرف اپنے عوام بلکہ اپنے پڑوسیوں کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔ وہ یوں بولتے ہیں جیسے بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ ان کی ذاتی جاگیر ہو، اور ان زمینوں کے اصل وارثوں کے جائز دعوؤں کو رد کرتے ہیں۔ ایسی تکبرانہ روش مزید دوری اور مزاحمت کو ہی جنم دے گی۔

’’ اگر ریاست غنڈے کی طرح برتاؤ کرے گی تو لوگ پہاڑوں کا رُخ کریں گے۔ ہم میں سے کچھ لوگ مسلح مزاحمت اور آئینی جدوجہد کے درمیان پل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن حکومت جبر بڑھا کر یہ کام مزید مشکل بنا دیتی ہے۔‘‘

انھوں نے آخر میں کہا میں پاکستان کی تمام مظلوم قوموں سے اتحاد کی اپیل کرتا ہوں۔ ہمارے درمیان اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن انصاف، وقار اور آزادی کے چند بنیادی اصولوں پر ہم ضرور متفق ہو سکتے ہیں۔ یہ ہماری مشترکہ تاریخ کا ایک نازک موڑ ہے۔ یہ زمین ہماری ہے—ہمیشہ سے ہماری رہی ہے—اور کوئی اسے ہم سے چھین نہیں سکتا۔

مکمل متن

Share This Article