حاتم بلوچ نے کہا مارچ 1948 میں پاکستان کی جانب سے بلوچستان کے غیرقانونی انضمام کے بعد سے بلوچ قوم دہائیوں سے منظم جبر کا شکار ہے۔
حاتم بلوچ ، بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے ممبر اور بی این ایم کے ماتحت انسانی حقوق کے ادارے پانک کے رابطہ کار ہیں ، انھوں نے ان خیالات کا اظہار جنیوا پریس کلب میں بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) زیر اہتمام منعقدہ ساتویں بین الاقوامی بلوچستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہا پاکستانی ریاست نے ہمیشہ ایک ہی پالیسی اپنائی ہے: فوجی آپریشنز، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، اجتماعی سزا، بڑے پیمانے پر بے دخلی اور اُن سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو نشانہ بنانا جو انصاف، آزادی اور وقار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہماری جماعت کے بانی چیئرمین، واجہ غلام محمد بلوچ، کو 2009 میں بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا۔ ان کا قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی بھی بلوچ رہنما جو پرامن جدوجہد پر یقین رکھتا ہے اور عوام کے حقوق اور وقار کی بات کرتا ہے، محفوظ نہیں ہے۔
ہر بار امن اور مکالمے کی اپیل کا جواب مذاکرات کے بجائے تشدد، دھمکیوں اور ریاستی جبر سے دیا گیا ہے۔ فوج پرامن تحریکوں پر کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے، جن میں بلوچ یکجہتی کمیٹی بھی شامل ہے۔ اس کی منتظم، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، دیگر ساتھیوں کے ساتھ پچھلے پانچ مہینوں سے قید ہیں۔ رہنماؤں پر سخت قوانین کے تحت سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں، اور کارکنوں کو اغوا یا قتل کیا جاتا ہے، جیسے ذیشان ظہیر۔ 62 دن سے جبری گمشدگان کے اہل خانہ اسلام آباد میں احتجاج کر رہے ہیں اور رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن ان کی آوازیں اب تک ان سنی ہیں۔‘‘
پانک کے رابطہ کار نے کہا روزانہ بلوچ عوام کو تشدد، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کا سامنا ہے۔ پانک کی جنوری تا جون 2025 کی رپورٹ کے مطابق 785 جبری گمشدگیوں کے کیسز، 121 ماورائے عدالت قتل، اور 261 ایسے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں تشدد کے بعد متاثرین کو رہا کیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 9 ستمبر 2025 کو شائع کردہ رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا کہ پاکستان غیر ملکی نگرانی کے آلات استعمال کر کے اپنے شہریوں کو مانیٹر اور خاموش کرتا ہے۔ ’’ویب مانیٹرنگ سسٹم (ڈبلیو ایم ایس 2.0)‘‘ اور ’’لافل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم ( ایل آئی ایم ایس )‘‘ جیسے نظام آن لائن سرگرمی کو ٹریک کرتے ہیں، مواد بلاک کرتے ہیں اور پیغامات و کالز کو انٹرسیپٹ کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا بلوچستان میں اس کا مطلب ہے انٹرنیٹ بندشیں، صحافیوں اور کارکنوں کو دھمکیاں، اور حتیٰ کہ ڈیجیٹل ٹریکنگ کے ذریعے جبری گمشدگیاں۔ ان مظالم کے باوجود، پاکستان نے 3 ستمبر 2025 کو انٹرنیشنل ایکٹ میں دفعہ 21 (AAA) شامل کی، جس کے تحت خفیہ مقدمات کی اجازت دی گئی، جہاں جج، وکلا اور گواہ سب پوشیدہ رہتے ہیں۔ فیصلے اور ریکارڈ سیل کر دیے جاتے ہیں اور حتیٰ کہ ورچوئل سماعتوں میں آواز بدلنے والی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے۔
حاتم بلوچ نے کہا اس کانفرنس اور پانک کی جانب سے، میں عالمی حکومتوں، بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بلوچستان میں پاکستان کے جنگی جرائم کی تحقیقات کریں، جن میں جبری گمشدگیاں، قتل اور تشدد شامل ہیں۔ میں سیاسی قیدیوں اور طلبہ کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہوں، جن میں عبد الرحمن احمد، ذاکر واجد، وجاہت خان برزھی، شبیر بلوچ اور دیگر شامل ہیں۔ میں یورپی یونین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کا از سرِ نو جائزہ لے۔ پاکستانی فوج کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے، اور متاثرین، خاندانوں، زندہ بچ جانے والوں اور خطرے سے دوچار افراد کو مدد فراہم کی جانی چاہیے۔
انھوں نے آخر میں کہا بلوچستان مزید خاموشی کے ساتھ ظلم برداشت نہیں کر سکتا۔ دنیا کو اب عمل کرنا ہوگا۔ بلوچستان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ انصاف کے ساتھ کھڑے ہوں۔ پاکستان میں دہشت کے خلاف کھڑے ہوں۔