بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) کے ادارہ تعلیم و تربیت کی جانب سے ’ پارٹی کارکنان کی فعالیت اور نظریاتی وابستگی ‘ کے عنوان سے ایک تربیتی نشست منعقد ہوا۔ اس موضوع پر سفیر بلوچ نے گفتگو کیا اور شرکاء کے سوالات کے جوابات دیئے ، پروگرام کی میزبانی کے فرائض شہید انورایڈوکیٹ ( کیچ گوادر ) ھنکین نے ادا کیے۔
سفیر بلوچ نے کہا کہ سیاسی کارکن کی پہلی اور بنیادی پہچان اس کی نظریاتی وابستگی ہوتی ہے، کیونکہ یہی وابستگی اس کی تمام جدوجہد کی فکری بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ایک حقیقی کارکن کسی جماعت میں ذاتی مفاد، وقتی فائدے یا عہدے کی لالچ کے تحت شامل نہیں ہوتا۔ وہ اس جماعت کے فکری ڈھانچے، تاریخی پس منظر، سیاسی فلسفے اور نصب العین سے فکری و جذباتی سطح پر جڑا ہوتا ہے۔ اس کی شمولیت کسی وقتی مصلحت کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک نظریے، سوچ اور اجتماعی مقصد کے ساتھ شعوری وابستگی ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جب کوئی فرد کسی سیاسی جماعت کے نظریات کو سمجھتا ہے، اس کی فکری اساس اور سیاسی منشور کو جان لیتا ہے، اور اپنے معاشرے کے لیے ان میں امید اور تبدیلی کا راستہ دیکھتا ہے، تو اس کے اندر ایک ایسا تعلق پیدا ہوتا ہے جو اسے عام شہری سے اٹھا کر ایک فعال سیاسی کارکن بنا دیتا ہے۔ نظریاتی وابستگی اسے محض رکنیت تک محدود نہیں رکھتی بلکہ اس کے اندر تحریک، یقین اور وفاداری کا ایسا تسلسل پیدا کرتی ہے جو اسے مشکلات، تنقید اور ریاستی دباؤ کے مقابلے میں ثابت قدم رکھتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی مضبوطی صرف اس کے منشور یا قیادت کے بیانات سے قائم نہیں رہتی بلکہ کارکنوں کی فکری، عملی اور تنظیمی تربیت سے ہوتی ہے۔ تربیت سے محروم کارکن نہ صرف سیاسی میدان میں کمزور پڑ جاتے ہیں بلکہ جماعت کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر سنجیدہ سیاسی جماعت کارکنوں کی علمی و تنظیمی تربیت کو اپنی حکمت عملی کا بنیادی حصہ بناتی ہے۔
انھوں نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہا جب ہم طلبا سیاست سے منسلک تھے تو بلوچ طلبا تنظیم بی ایس او کا کارکن اپنی فکری بلوغت، سماجی شعور، علم دوستی اور سیاسی بصیرت کی بنیاد پر ہر محفل میں نمایاں نظر آتا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ایک سیاسی کارکن کی شناخت محض تنظیمی وابستگی نہیں بلکہ اس کا شعوری ارتقاء، فکری گہرائی، مطالعے کا ذوق اور معاشرتی مسائل سے آگاہی اسے دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ جہاں سو افراد کی محفل میں بھی اس کا انداز فکر، دلیل، گفتگو کا وقار اور بات کا وزن اسے الگ پہچان دیتے ہیں۔ وہ ایک باشعور فرد، مؤثر سیاسی فکر رکھنے والا نوجوان اور سماجی آگہی کا حامل کارکن بن جاتا ہے۔ اس کا مطالعہ وسیع ہوتا ہے، وہ تاریخ، سیاست، فلسفہ، ادب اور قومی سوالات پر مسلسل غور کرتا رہتا ہے۔ اس کی سوچ جذبات سے زیادہ مشاہدے، تجربے اور دلیل پر قائم ہوتی ہے۔
’’ یک سیاسی کارکن معاشرتی ناہمواریوں، طبقاتی تقسیم، تعلیمی زبوں حالی، نوجوانوں کے مسائل، ثقافتی شناخت اور سیاسی جدوجہد کی پیچیدگیوں کو بہتر انداز میں سمجھتا ہے۔ اس کی رائے محض نعرہ نہیں بلکہ ایک فکری جواز رکھتی ہے۔ یہی بلوغت اس کی عملی پہچان بنتی ہے۔ اس کی گفتگو میں سنجیدگی، رویّے میں برداشت اور سوچ میں پختگی جھلکتی ہے۔‘‘
لہذا ایک سیاسی کارکن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کے بنیادی مقصد، تنظیمی ذمہ داریوں اور اصولی راستے سے کبھی دور نہ ہو۔ آزاد سوچ اور وسیع نظریہ کارکن کی خوبی ہے، لیکن اگر یہی آزاد خیالی اس حد تک چلی جائے کہ کارکن اپنے مقصد، اصول یا اجتماعی راستے سے بے تعلق ہونے لگے، تو یہ رویہ نقصان دہ بن جاتا ہے۔ بے لگام ذہنی آزادی نظریاتی کمزوری، تنظیمی انتشار اور جدوجہد سے لاتعلقی پیدا کر سکتی ہے، جس سے نہ صرف کارکن کی اپنی شخصیت متاثر ہوتی ہے بلکہ پوری تحریک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آخر میں انھوں نے مطالعہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی کارکن کے لیے مطالعہ بنیادی ضرورت ہے۔ وہ جس نظریے، جدوجہد اور تبدیلی کا داعی ہوتا ہے، اس کو سمجھنے، پرکھنے اور مضبوط کرنے کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے۔ یہی مطالعہ اس کی سوچ کو گہرائی دیتا ہے، دلیل کو وزن بخشتا ہے اور جدوجہد کو شعور کے ساتھ جوڑتا ہے۔ لہذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ مطالعہ کے بغیر کارکن نہ تاریخ کو درست سمجھ سکتا ہے نہ موجودہ حالات کی پیچیدگیوں کو۔ اس لیے ایک سیاسی کارکن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے معاشرے، قوم، سرزمین اور عالمی سیاسی تبدیلیوں سے باخبر رہے، اور یہ آگاہی صرف مسلسل مطالعہ سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی مطالعہ اسے جذباتی سیاست سے نکال کر شعوری اور منطقی سیاست تک لے جاتا ہے۔ یہ مطالعہ ہی ہے جو اسے تجزیاتی قوت بھی فراہم کرتا ہے۔ وہ جان پاتا ہے کہ مسائل کا پس منظر کیا ہے، ان کے حل کے راستے کیا ہو سکتے ہیں، اور عوام سے بات کیسے مؤثر انداز میں کی جائے۔ یہ بصیرت کتابوں، تحقیق، مکالمے اور مسلسل غور و فکر سے پیدا ہوتی ہے۔ مطالعہ سیاسی نظریات تک محدود نہیں ہونا چاہیے؛ کارکن کو تاریخ، معاشیات، فلسفہ، سماجیات، انسانی حقوق، جمہوریت، عالمی تحریکوں اور بدلتے عالمی ماحول پر بھی گہری نظر رکھنی چاہیے۔ جب مطالعہ وسیع ہوتا ہے تو نظریہ مضبوط ہوتا ہے، سیاست سنجیدہ بنتی ہے اور جدوجہد پائیدار ہوتی ہے۔
