پانک کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق ، بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت ریاستی قتل کے واقعات بدستور جاری ہیں ، بلکہ ان میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے انسانی حقوق کے ادارے پانک کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے خلاف وزریوں کی متعدد منظم اور جان بوجھ کر کی گئیں کارروائیوں میں بلوچستان کے 18 اضلاع میں بلوچ آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔پانک کی طرف سے ہر واقعے کی تصدیق کرکے اسے رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
اپریل 2025 میں 151 افراد کو پاکستانی فوج اور متعلقہ اداروں نے جبری لاپتہ کیا۔ سب سے زیادہ متاثرہ ضلع کیچ ہے جہاں سے 53 افراد جبری لاپتہ ہوئے، اس کے بعد گوادر میں 19، اور شال میں 18 افراد کی جبری گمشدگی کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ دیگر اضلاع میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں جن میں ڈیرہ بگٹی میں 13، پنجگور میں 8، آواران میں 7، سیبی میں 6، بارکان میں 5، کراچی اور مستونگ میں 4-4، لسبیلہ، موسی خیل، چاغی، خضدار، کلات میں 2-2، جبکہ واشک، خاران، سوراب، اور نوشکے میں ایک ایک شخص کو جبری لاپتہ کیا گیا۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ پورے بلوچستان میں بلوچ عوام کو یکساں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پانک کے مطابق متاثرین کو جبری گمشدگی کے دوران مکمل طور پر خاندان اور باقی دنیا سے کاٹ دیا جاتا ہے ، اور کئی کیسز میں جبری گمشدگان کو ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے۔اپریل کے مہینے میں 50 افراد پاکستانی فوج کے اذیت گاہوں سے رہا کیے گئے۔23 افراد کو ماورائے عدالت ریاستی قتل کیا گیا ، اس میں پاکستانی فوج براہ راست ملوث ہے۔کئی لوگ غیرقانونی حراست یا تشدد کے دوران زخمی بھی ہوچکے ہیں ، تاہم ان کا مکمل اعداد و شمار دستیاب نہیں۔
رپورٹ میں جبری گمشدگی کے دوران حراستی قتل کے واقعات کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ اپریل 2025 کے دوران بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے جن میں کئی افراد کو جبری گمشدگی کے بعد قتل کیا گیا۔ عبدالمالک بلوچ کو 11 اکتوبر 2024 کو تربت (کیچ) سے لاپتہ کیا گیا اور 4 اپریل 2025 کو ان کی لاش باغبانہ، خضدار سے ملی۔ شاہ نواز اور ظہور احمد کو 5 اپریل کو مشکے، آواران سے اغوا کرکے حراست میں قتل کیا گیا، جبکہ حبیب بلوچ کو مارچ 2025 میں لاپتہ کرنے کے بعد انہی کے ساتھ 5 اپریل کو قتل کیا گیا۔ ساحل بلوچ، ایک 12 سالہ بچہ، کو اپریل کے مہینے میں پسنی، گوادر سے اغوا کیا گیا، جس کی لاش شاہ جان ہوٹل، پسنی کے پیچھے سے ملی۔ مہراب اور خان محمد کو 6 اپریل کو اغوا کرکے قتل کیا گیا۔ حق نواز، شیرو، اور گل زمان بزدار کو 5 اپریل کو بارکان سے جبری گمشدہ کرنے کے بعد جعلی مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ بہادر شفیع اور ان کے تین کزنز کو 7 اپریل کو وشبود، پنجگور میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈز نے نشانہ بنا کر قتل کیا۔ نادِر بلوچ کو 6 اپریل کو کنداری، مشکے سے جبری لاپتہ کیا گیا اور اگلے دن ان کی لاش ملی۔ نظام بلوچ کو پسنی سے فوج نے اغوا کیا ، 16 اپریل کو ان کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی۔ فاروق احمد بلوچ کو 14 اپریل کو خضدار سے اغوا کیا گیا اور 15 اپریل کو ان کی لاش نال سے ملی۔ شیر خان نذر کو تربت سے اٹھا کر 17 اپریل کو قتل کر دیا گیا۔ نبیل بلوچ، جو تعلیم و صحافت سے وابستہ تھے، کو اپریل میں تمپ کالج، کیچ میں گولی مار کر قتل کیا گیا۔ ضلع دوکی میں ماورائے عدالت قتل کے ایک تسلسل میں کئی افراد کو بلوچ سرمچار ظاہر کرکے قتل کیا گیا، جن میں محمد دین مری، اعجاز احمد، نبیل مری، اور خیر محمد محمد حسنی شامل ہیں۔
رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی فوج ان مظالم میں ملوث ہے جو کسی بھی قانونی کارروائی کی گرفت سے آزاد ہے۔ قید کی جگہوں اور فوجی حراستی مراکز کے بارے میں معلومات نہ دینا اور متاثرین کے اہل خانہ اور وکلاء کو ملاقات سے روکنا اس غیر انسانی رویے کی ایک بڑی دلیل ہے۔ پانک کی رپورٹ میں پاکستانی فوج کی سرپرستی میں قائم ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے قتل کیے گئے افراد کا بھی ذکر کیا ہے ، ڈیتھ اسکواڈز پاکستانی فوج کا بلوچستان میں سب سے بے رحم دستہ اور آئین و قوانین سے بالاتر قتل کی مشین کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
پانک بین الاقوامی برادری اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فوری طور پر ان کیسز کی آزادانہ تحقیقات کریں، جبری لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات فراہم کریں کہ انھیں کیوں ، کہاں اور کس جرم کے تحت حراست میں رکھا گیا، اور جبری گمشدگیوں کے ذمہ دارن کے خلاف کارروائی کی جائے۔
پانک اپنی رپورٹ کے آخر میں بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتا ہے کہ وہ جبری لاپتہ افراد کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی کنونشن کی توثیق اور نفاذ یقینی بنائے اور ایسے اقدامات کرے جو ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روک سکیں۔ اگر فوری طور پر کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو بلوچستان میں یہ مظالم نہ صرف انفرادی حقوق کو متاثر کریں گے بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کو بھی شدید خطرے میں ڈالیں گے۔