پانک مارچ 2023 کی انسانی حقوق کی رپورٹ (انگلش)
شال: بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے ’ پانک ‘ نے اپنی مارچ 2023 کی رپورٹ ’بلوچستان میں مکمل مارشل لا کی صورتحال‘ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق مارچ 2023 میں پاکستانی فوج نے 7 افراد کو قتل کیا۔ بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے کولواہ کے رہائشی چرواہا اللہ داد اور ضلع خاران کے رہائشی صلاح الدین سیاپاد کو دوران حراست بدترین تشدد کیا گیا۔ تشدد کے بعد دونوں کو بغیر ضروری اور ہنگامی طبی امداد فراہم کیے رہا کیا گیا جس سے دونوں متاثرہ افراد پاکستانی فوج کے تشدد سے شدید زخمی ہونے کی وجہ سے فوت کر گئے۔
پانک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کے سب سے بڑے مسئلے کے طور پر نمایاں ہونے کے باوجود بلوچستان میں یہ پاکستانی فوج کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے کہ وہ لوگوں کو ماورائے آئین و قانون گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کرتی ہے۔مارچ 2023 میں 58 افراد کو جبری لاپتہ کیا گیا اور ہزاروں جبری لاپتہ افراد میں سے صرف 31 افراد پاکستانی فوج کے عقوبت خانوں سے رہا کیے گئے جنھیں قید کے دوران ذہنی اور جسمانی اذیت دی گئی۔ پاکستانی فوج نے نا ہی انھیں کسی عدالت میں پیش کیا ہے ، نا ہی ان پر لگائے جانے والے الزامات کی وضاحت کی گئی ہے اور نا ہی ان کی گرفتاری کی وجہ بیان کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ ، غیر اعلانیہ مارشل لا ، جبری گمشدگیاں ، ماورائے عدالت قتل اور پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
پانک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں میجر آصف غفور کی بطور کور کمانڈر تعیناتی کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔بلوچستان میں بطور کور کمانڈر میجر آصف غفور کی تعیناتی سے بلوچستان میں پر امن میں سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کی گئی، تمام عوامی ادارے مفلوج ہوچکے ہیں اور میجر آصف غفور ایک کالونیل وائسرائے کی طرح بلوچستان کے تمام اداروں کو براہ راست احکامات جاری کر رہا ہے۔محکمہ تعلیم ، صحت اور عدلیہ جیسے ادارے بھی فوجی مداخلت سے محفوظ نہیں رہے۔فوجی حکام اعلی تعلیمی اداروں کے تعلیمی تقریبات سمیت تمام امور میں مداخلت کر رہے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کے بیشتر رقبے پر پاکستانی فوج کا قبضہ ہے اور عمارت میں ایف سی رہائش پذیر ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی سرکاری رہائش گاہ میں بھی پاکستانی فوج کے ایک ونگ کمانڈر کی رہائش ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں رہائش پذیر ایف سی کی طرف سے مصرف کیے جانے والے بجلی اور گیس کے ماہانہ لاکھوں روپے کے بلز بھی بلوچستان یونیورسٹی کی طرف سے ادا کیے جاتے ہیں جو پہلے سے ہی شدید مالی بحران کا شکار ہے۔
’’میڈیا بلیک ہول میں قید اور دنیا کی نظروں سے پوشیدہ بلوچستان دنیا کے ایک ایسے خطے میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں ۔انسانی بحران سے دوچار بلوچستان کی صورتحال کے ایک دن کے جائزے سے بھی یہاں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔مارچ 2023 میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ بلوچستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستانی فوج بلوچستان کے عوام کی سیاسی اور انسانی حقوق سلب کرنے کے لیے ان پر بلاجھجک تشدد کر رہی ہے۔‘‘
پانک نے اپنی رپورٹ میں حق دو تحریک بلوچستان کے کارکنان اور قیادت پر ریاستی کریک ڈاؤن کا بھی ذکر کیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے 25 مارچ کو حق دو تحریک کےکونسلر حاجی جاوید، کونسلر نوید محمد، کونسلر نصیر شہزادہ، چیئرمین اللہ بخش، عابد جی ایم اور مولانا لیاقت بلوچ کی بھی ضمانتیں خارج کرکے انھیں گرفتار کیا گیا۔سیاسی سرگرمیوں اور اظہار رائے پر پابندی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے جس پر بلوچ عوام اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور یہ سوال رکھتے ہیں کہ جب ریاست اور انصاف کی ضامن ریاستی عدلیہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوں تو شہریوں کی حفاظت کی ذمہ دار کا تعین کس معیار اور اصول پر ممکن رہے گا ؟۔
رپورٹ میں جعلی مقدمے میں قید انسانی حقوق کی کارکن ماھل بلوچ کی گرفتاری کے مسئلے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے: ’’ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس ضمن میں پاکستان کے وزیر داخلہ کو ایک خط لکھ کر ماھل بلوچ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا یہ عمل قابل تحسین ہے لیکن یہ موثر ثابت نہیں ہو رہا لہذا ایمنسٹی انٹرنیشل کو اس بارے میں متواتر پاکستانی حکام پر اپنا دباؤ برقرار رکھنا ہوگا اورانسانی حقوق کے تحفظ کے لیے وہ تمام ذرائع بروئے کار لانے ہوں گے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے نفاذ کی ضمانت دیتے ہیں۔‘‘
پانک نے پاکستانی عدلیہ کے کردار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تنقید کی ہے : ’’ 12 فروری 2023 کو شال سے جبری لاپتہ ہونے والے طالب علم ثاقب سرپرہ اور ساجد سرپرہ کو سی ٹی ڈی نے جعلی مقدمات ملوث کیا اور عدالت نے انھیں پانچ پانچ سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ان کے کیسز میں بھی صرف پاکستانی فوج کی خواہش کو قانون مانتے ہوئے عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔پاکستانی بندوبست میں شامل دیگر خطوں اور دیگر معاملات میں پاکستانی عدلیہ ایک متحرک کردار ادا کرتی ہے اور از خود نوٹس کی بنیاد پر عدالتی کارروائیوں میں پاکستانی عدلیہ شہرت رکھتی ہیں مگر بلوچستان میں انسانی حقوق کے سنگین معاملات میں پاکستانی عدلیہ جانبدار ہوچکی ہے اور پاکستانی فورسز کے ایک سہولت کار کے طور پر کردار ادا کر رہی ہے جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔‘‘
رپورٹ کا مکمل پیش لفظ :
بلوچستان میں مکمل مارشل لا کی صورتحال
اہم موضوعات
- میڈیا بلیک ہول میں قید بلوچستان
- بلوچستان میں غیر اعلانیہ مارشل لا
- بلوچستان جبری گمشدگیوں کی صورتحال
- پاکستانی فوج کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل
میڈیا بلیک ہول میں قید اور دنیا کی نظروں سے پوشیدہ بلوچستان دنیا کے ایک ایسے خطے میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں ۔انسانی بحران سے دوچار بلوچستان کی صورتحال کے ایک دن کے جائزے سے بھی یہاں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔مارچ 2023 میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ بلوچستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستانی فوج بلوچستان کے عوام کی سیاسی اور انسانی حقوق سلب کرنے کے لیے ان پر بلاجھجک تشدد کر رہی ہے۔
بلوچستان میں بطور کور کمانڈر میجر آصف غفور کی تعیناتی سے بلوچستان میں پر امن میں سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کی گئی، تمام عوامی ادارے مفلوج ہوچکے ہیں اور میجر آصف غفور ایک کالونیل وائسرائے کی طرح بلوچستان کے تمام اداروں کو براہ راست احکامات جاری کر رہا ہے۔محکمہ تعلیم ، صحت اور عدلیہ جیسے ادارے بھی فوجی مداخلت سے محفوظ نہیں رہے۔فوجی حکام اعلی تعلیمی اداروں کے تعلیمی تقریبات سمیت تمام امور میں مداخلت کر رہے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کے بیشتر رقبے پر پاکستانی فوج کا قبضہ ہے اور عمارت میں ایف سی رہائش پذیر ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی سرکاری رہائش گاہ میں بھی پاکستانی فوج کے ایک ونگ کمانڈر کی رہائش ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں رہائش پذیر ایف سی کی طرف سے مصرف کیے جانے والے بجلی اور گیس کے ماہانہ لاکھوں روپے کے بلز بھی بلوچستان یونیورسٹی کی طرف سے ادا کیے جاتے ہیں جو پہلے سے ہی شدید مالی بحران کا شکار ہے۔
بلوچستان میں غیر اعلانیہ مارشل لا :
حق دو تحریک بلوچستان ایک غیرجماعتی عوامی تحریک ہے جس میں مختلف جماعتوں اور مکتبہ فکر کے لوگ لوگ شامل ہیں۔ تحریک کے قائدین کا کہنا ہے کہ یہ تحریک پرامن طریقے سے بلوچستان کے حقوق حاصل کرنے کے لیے چلائی جا رہی ہے۔اس تحریک کا مرکز گوادر میں ہے جو بلوچستان کا سب سے اہم شہر ہے جہاں چین اور پاکستان اپنے مفادات میں بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس شہر کو چائنا پاکستان کوریڈور کے مرکز کی حیثیت بھی حاصل ہے ۔ بلوچ ان منصوبوں کو استحصالی منصوبے قرار دے کر ان کے خلاف مظاہروں اور احتجاج کے ذریعے اپنے موقف کا اظہار کرتی ہے۔حق دو تحریک بلوچستان نے گوادر میں لاکھوں افراد کو اکھٹا کرکے ان منصوبوں میں بلوچ حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کیا اور جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور سمندری حیات کی نسلی کشی کی روک تھام جیسے بنیادی شہری حقوق کے مطالبے کیے۔اس پر گوادر میں مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ، سیاسی کارکنان کو گرفتار کرکے گوادر میں ہر قسم کی سیاسی سرگرم پر پابندی عائد کی گئی۔
کور کمانڈر بلوچستان میجر آصف غفور نے اعلانیہ کہا کہ اگر گوادر کے لوگوں نے احتجاج مظاہرے کیے تو انھیں جیل میں ڈالا گیا۔حق دو بلوچستان کے رہنماء مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو عدالت میں پیش ہونے کے باوجود گذشتہ 75 دن سے زائد جعلی مقدمات میں قید رکھا گیا اور عدلیہ میں ان کی ضمانت روکی گئی۔
25 مارچ کو حق دو تحریک کےکونسلر حاجی جاوید، کونسلر نوید محمد، کونسلر نصیر شہزادہ، چیئرمین اللہ بخش، عابد جی ایم اور مولانا لیاقت بلوچ کی بھی ضمانتیں خارج کرکے انھیں گرفتار کیا گیا۔سیاسی سرگرمیوں اور اظہار رائے پر پابندی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے جس پر بلوچ عوام اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور یہ سوال رکھتے ہیں کہ جب ریاست اور انصاف کی ضامن ریاستی عدلیہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو تو شہریوں کی حفاظت کی ذمہ دار کا تعین کس معیار اور اصول پر ممکن رہے گا ؟۔ بلوچستان میں پارلیمان کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی ہےاس لیے جب عوامی جماعت بی این ایم نے غیرپارلیمانی سیاست کا راستہ اختیار کیا تو بی این ایم کے بانی صدر چیئرمین غلام محمد بلوچ سمیت 85 کے قریب کارکنان و قائدین شہید کیے گئے۔ایک طویل عرصے تک بلوچستان میں عوامی اجتماع پر غیراعلانیہ پابندی رہی لیکن حالیہ سالوں میں بلوچ عوام نے جب دوبارہ اپنے حقوق کے لیے پرامن سیاست کا راستہ اختیار کیا تو ایک مرتبہ پھر پاکستانی فوج کی ایما پر بلوچ سیاسی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔مکمل مارشل جیسی صورتحال پیدا کی گئی ہے اور انسانی حقوق کے مطالبے پر جعلی مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ انسانی حقوق کے لیے اٹھنے والی تمام آوازوں کو خاموش کیا جاسکے۔
بلوچستان جبری گمشدگیوں کی صورتحال :
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کے سب سے بڑے مسئلے کے طور پر نمایاں ہونے کے باوجود بلوچستان میں یہ پاکستانی فوج کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے کہ وہ لوگوں کو ماورائے آئین و قانون گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کرتی ہے۔مارچ 2023 میں 58 افراد کو جبری لاپتہ کیا گیا اور ہزاروں جبری لاپتہ افراد میں سے صرف 31 افراد پاکستانی فوج کے عقوبت خانوں سے رہا کیے گئے جنھیں قید کے دوران ذہنی اور جسمانی اذیت دی گئی۔ پاکستانی فوج نے نا ہی انھیں کسی عدالت میں پیش کیا ہے ، نا ہی ان پر لگائے جانے والے الزامات کی وضاحت کی گئی ہے اور نا ہی ان کی گرفتاری کی وجہ بیان کی گئی ہے۔
پاکستانی فوج نے جس طرح جبری گمشدگیوں کو اپنے روز کے پریکٹس کا حصہ بنایا ہے ان افراد کو بلاوجہ اذیت دینے کے بعد ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کی بحالی کے لیے ریاست پاکستان کو جوابدہ ہونا چاہیے ۔ جبری گمشدگی کے شکار افراد نے جو وقت قید میں کاٹا ہے اس کے معاوضے کی ادائیگی ریاست پاکستان پر واجب ہے یا پھر اسے ان الزامات اور جرائم کی عدالتوں میں وضاحت پیش کرنی چاہیے جو پاکستانی فوج کو لوگوں کو گرفتار کرنے ، ان پر اذیت کرنے اور انھیں غیرمعینہ مدت کے لیے ٹارچرسیلز میں رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔
افسوس کا پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں عالمی امداد اور اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں سے مستفید ہونے والے ’ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ اور دیگر اداروں کے مقامی ذمہ داران انسانی حقوق کے اس تشویناک پہلو پر زیادہ تر خاموش ہیں یا صرف منتخب کیسز پر ہی بیانات دیتے ہیں۔انھیں ہر جبری گمشدگی پر متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔پاکستانی فوج کے ٹارچرسیلز سے بازیاب ہونے والوں کی صحت کی بحالی اور انھیں دوبارہ جبری گمشدگی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے انسانی حقوق کے ادارے کردار ادا نہیں کر رہے جس سے ریاست کو جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو جاری رکھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔پاکستانی فوج بلوچستان میں انسانیت کے خلاف جرائم میں خود کو تمام تر قوانین کی گرفت سے آزاد محسوس کرتی ہے۔ اس لیے ہم یہ دہراتے ہیں کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی پامالی کو جاری رکھنے میں انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے ذمہ داران کی خاموشی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔
پاکستانی فوج کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل:
مارچ 2023 میں پاکستانی فوج نے 7 افراد کو قتل کیا۔ بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے کولواہ کے رہائشی چرواہا اللہ داد اور ضلع خاران کے رہائشی صلاح الدین سیاپاد کو دوران حراست بدترین تشدد کیا گیا۔ تشدد کے بعد دونوں کو بغیر ضروری اور ہنگامی طبی امداد فراہم کیے رہا کیا گیا جس سے دونوں متاثرہ افراد پاکستانی فوج کے تشدد سے شدید زخمی ہونے کی وجہ سے فوت کر گئے۔
ان افراد کے ساتھ پاکستانی فوج نے جن لوگوں کو گرفتار کیا تھا ان پر بھی شدید تشدد کیا گیا جو بغیر کسی حکومت اور غیرسرکاری امداد اور معاوضے کے مقامی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ان میں خاران کے رہائشی اور حکومت بلوچستان کے محکمہ صحت کے ملازم شوکت تگاپی، اور کولواہ ضلع آواران کے رہائشی چرواہا سنجر ولد بشام تربت کے سول ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
پولیس کا کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں:
بلوچستان میں پاکستانی فوج کی غیرقانونی کارروائیوں کو جعلی طریقے سے قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے پاکستانی فوج پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کو استعمال کر رہی ہے۔جو پاکستانی فوج کی ایما پر جبری لاپتہ افراد پر جعلی مقدمات قائم کرکے ان کی گرفتاریاں ظاہر کرتی ہیں۔بہت سے کیسز ایسے ہیں جنھیں متاثرہ افراد کے خاندان خوف اور پاکستانی فوج کے دباؤ کی وجہ سے رکارڈ پر لانے سے گریز کرتے ہیں۔
پاکستانی فوج کو اگر کسی کے ریاست مخالف سرگرمی کے بارے میں یقین ہوتا ہے تو اسے منصفانہ عدالتی ٹرائل کے بغیر یا جبری لاپتہ حالت میں عمر بھر قید رکھا جاتا ہے یا پھر اسے ماورائے عدالت قتل کرکے اس کی لاش پھینکی جاتی ہے لیکن سینکڑوں افراد جن میں زیادہ تر اٹھارہ سال یا اس سے کمتر عمر کے بچوں کی ہے ، انھیں سالوں جبری لاپتہ رکھنے کے بعد جھوٹے مقدمات میں قید و بند کی سزائیں دی گئی ہیں ،جس سے ان کی زندگی کے قیمتی سال جرم ناکردہ پر پاکستانی جیل میں ضائع ہو رہے ہیں۔ انھیں اپنے علاقوں سے دور ایسے علاقوں میں قید کیا جاتا ہے جہاں ان کے خاندان کو رسائی حاصل نہیں ، انھیں جیل میں بھی قیدیوں کی سہولیات اور حقوق میسر نہیں۔
ماھل بلوچ کا کیس ایک نمایاں کیس ہے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کے بھی علم میں آچکا ہے۔جنھیں 17 فروری کو سیٹلائیٹ ٹاؤن شال سے پاکستانی فوج نے گرفتار کیا تھا اور بعد ازاں سی ٹی ڈی نے ان کی گرفتاری ظاہر کی تھی۔ پہلے ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ ایک خودکش بمبار ہیں پھر سی ٹی ڈی نے اپنا بیان بدلتے ہوئے انھیں مبینہ ناکام خودکش حملے کا ماسٹرمائند بتایا جسے بقول سی ٹی ڈی کے خودکش جیکٹ کو منتقل کرتے وقت گرفتار کیا تھا ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انھیں پاکستانی فوج نے ان کے گھر سے ان کی ساس اور دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔
ماھل بلوچ کی گرفتاری کی وجہ ان کی سیاسی ، سماجی سرگرمیاں اور جبری لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے ان کا کردار ہے۔ ماھل بلوچ اور ان کا خاندان جبری لاپتہ افراد اور بلوچستان میں انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں ، ان کی سرگرمیاں آن دی رکارڈ ہیں۔انھیں اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو خاموش کرانے کے لیے انھیں ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا گیا ہے۔
ماھل بلوچ پر جعلی مقدمے میں چار مرتبہ بلوچستان ہائیکورٹ میں پیش کیا گیا لیکن باقاعدہ مقدمہ شروع کرنے کی بجائے بار بار ان کا ریمانڈ حاصل کیا جا رہا ہے اور عدالت پاکستانی فوج کے دباؤ میں اس ریمانڈ میں بغیر کسی جرح کی توسیع کر رہی ہے ، جس سے عدالت کا کردار بھی مشکوک ہے اور ماھل کو انصاف کی توقع کمزور ہوچکی ہے اور اس کا غیرجانبدارانہ کردار بھی نظر نہیں آتا۔
سی ٹی ڈی نے دوران قید ماھل بلوچ کے حق اور قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے تشدد کے ذریعے ان کا جھوٹا بیان حاصل کیا اور یہ بیان میڈیا پر چلا کر ان کے خلاف پاکستانی عوام میں نفرت پھیلانے اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ماھل کو ملزم کو طور پر عدالت میں پیش کرنے اور اس پر لگائے گئے الزامات کے تحت کارروائی شروع کرنے میں پاکستانی فوج عدالت پر دباؤ قائم کیے ہوئے اور دوسری طرف ان پر تشدد کرکے میڈیا پر ان کا یک طرفہ ٹرائل کیا جا رہا ہے ، جو انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ییں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس ضمن میں پاکستان کے وزیر داخلہ کو ایک خط لکھ کر ماھل بلوچ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا یہ عمل قابل تحسین ہے لیکن یہ موثر ثابت نہیں ہو رہا لہذا ایمنسٹی انٹرنیشل کو اس بارے میں متواتر پاکستانی حکام پر اپنا دباؤ برقرار رکھنا ہوگا اورانسانی حقوق کے تحفظ کے لیے وہ تمام ذرائع بروئے کار لانے ہوں گے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے نفاذ کی ضمانت دیتے ہیں۔
اسی طرح 12 فروری 2023 کو شال سے جبری لاپتہ ہونے والے طالب علم ثاقب سرپرہ اور ساجد سرپرہ کو سی ٹی ڈی نے جعلی مقدمات ملوث کیا اور عدالت نے انھیں پانچ پانچ سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ان کے کیسز میں بھی صرف پاکستانی فوج کی خواہش کو قانون مانتے ہوئے عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔پاکستانی بندوبست میں شامل دیگر خطوں اور دیگر معاملات میں پاکستانی عدلیہ ایک متحرک کردار ادا کرتی ہے اور از خود نوٹس کی بنیاد پر عدالتی کارروائیوں میں پاکستانی عدلیہ شہرت رکھتی ہیں مگر بلوچستان میں انسانی حقوق کے سنگین معاملات میں پاکستانی عدلیہ جانبدار ہوچکی ہے اور پاکستانی فورسز کے ایک سہولت کار کے طور پر کردار ادا کر رہی ہے جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔