ستائیس مارچ : ایک درد ناک زندگی کی ابتداء
معزز بلوچ!
بلوچستان میں ہر دن ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ بلوچ کی زندگی میں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب جبری گمشدگی کے واقعات نہ ہو ، مسخ شدہ لاش برآمد نہ ہو، جعلی مقابلے اور اجتماعی سزا کے عمل کے ذریعے بلوچ جہد کاروں کے خاندان کو ذہنی و جسمانی اذیت کے عمل سے گزارا نہ جائے، مجموعی طور پر بلوچستان کی صورتحال سے بلوچ عوام کی زندگی کو مکمل طور پر اجیرن بنادیا گیا ہے۔
ستائیس مارچ بلوچ قوم کے لیے ایک ایسے سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے جس دن پاکستانی آرمی اور اس کے اداروں نے بلوچ گلزمین پر قبضہ کرکے بلوچ قوم کو ثقافتی، سماجی، سیاسی ، تعلیمی و معاشی حوالے سے محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہے۔ ستائیس مارچ کا دن اس درد ناک زندگی کی ابتداء کا دن ہے جس نے بلوچ قوم کو شناخت اور تشخص کے مسئلے سے دوچار کردیا ۔ اس درد ناک زندگی سے چھٹکارا پانے کا حل بلوچ قوم کی آزادی و مزاحمت میں پنہاں ہے۔مزاحمت کے بغیر نہ درد ناک زندگی سے چھٹکارا ممکن ہے اور نہ ہی پاکستانی ظلم و جبر اور ذلت آمیز زندگی سے۔
غیور بلوچ عوام !
ستائیس مارچ کی تاریخی حقیقت کو اگر دیکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم میں برطانوی سرکار کو معاشی و جنگی محاذ پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تو ریاست برطانیہ نے اس خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے ہندوستان کو تقسیم کرکے اس کے بطن سے پاکستان جیسی ریاست کو جنم دیا اور پاکستان کو مدد و تعاون فراہم کرکے سازشوں کے ذریعے بلوچ سرزمین کو پاکستان کے حوالے کردیا۔
تاریخی شواہد اور دستاویزات ثابت کرتے ہیں کہ گیارہ اگست 1947 کو سرکار برطانیہ نے بلوچستان کی آزادی کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ بلوچستان کی آزاد حیثیت کو پاکستان اور برطانیہ دونوں نے تسلیم بھی کیا۔تاریخ اس بات کا بھی ثبوت فراہم کرتی ہے کہ بلوچستان کی آزادی کے دن خان بلوچ میر احمد یار خان نے عوام سے خطاب کرکے بلوچستان کے امن و سلامتی کو قائم کرنے کے لیے قربانی دینے کا بھی عہد کیا۔
بلوچ قومی تاریخ میں یہ بات بھی نقش ہے کہ میر احمد یار خان نے بلوچستان کے مستجار علاقوں کی واپسی کے لیے گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح کو بلوچستان کا وکیل نامزد کیا لیکن اپنے دھوکے بازی کی فطرت سے مجبور پاکستان نے سازشوں کا جال بچھا کر مستجار علاقوں کی واپسی کے بجائے میر احمد یار خان کے سامنے الحاق کی تجویز پیش کی جسے بلوچستان کے دارالعوام اور دارلعمرا نے یکسر مسترد کیا اور الحاق کے خلاف جنگ اور مزاحمت کرنے کا بھی اعلان کیا۔
فرزندان زمین!
سازشوں کا سلسلہ وسیع ہوتا چلا گیا اور آخر کار سترہ مارچ 1948 کو ریاست لسبیلہ، خاران اور مکران کے ساتھ الحاق کرکے غیر آئینی اقدام اٹھایا گیا جس کے خلاف بلوچ عوام نے بھرپور مزاحمت کی اور آخر کار 27 مارچ 1948 کو کلات پر فوج کشی کرکے بلوچستان پر قبضہ کرکے سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور اس وقت کی متحرک سیاسی پارٹی کلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کو کالعدم قرار دیا گیا، اس غیر قانونی و غیر انسانی عمل کے خلاف آغا عبدالکریم کی سربراہی میں مزاحمت کی بنیاد بھی رکھی گئی جسے دھوکے کے ساتھ ختم کردیا گیا ۔
بہادر زمین کے فرزندوں !
بلوچ قوم کی تاریخ مزاحمتی تاریخ ہے جس نے پرتگال سامراج سے لے کر انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے اپنے قومی تشخص کو محفوظ کیا۔خان محراب خان جس کی مزاحمت آج بھی تاریخ کا حصہ ہے جس نے شہادت کا رتبہ پا کر خود کو ہمیشہ کے لیے امر کردیا ،آج بھی ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوان پاکستانی اذیت گاہوں میں درد ناک زندگی گزار رہے ہیں۔ سینکڑوں بلوچ سیاسی مزاحمت کاروں کو شہید کردیا گیا ہے اور آج اسی مزاحمت کی وجہ سے جہد کاروں کے خاندان کو اجتماعی سزا کے عمل سے گزارا جارہا ہے جو ریاست پاکستان کی شکست کا ثبوت ہے۔
بلوچ زمین کے وارثوں !
ہمارے اسلاف نے ہر دور میں مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے قومی تشخص و قومی وقار کی حفاظت کی ہے۔آج بھی ہماری قوم تشخص و وقار کی بحالی کے لیے جدوجہد کررہی ہے ۔آج ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی قومی آزادی کے لئے مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے قومی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی و مزاحمتی تنظیموں کا حصہ بن کر ان کی مضبوطی کے لیے کردار ادا کریں۔