مشکے : شہدائے مرگاپ کی یاد میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے مرکزی کال پر بی این ایم مشکے ھنکین کی طرف سے ھنکین آرگنائزر کمبر بلوچ کی صدارت میں آنلائن پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔اس پروگرام میں ھنکین کے ممبران کے علاوہ مرکزی سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر جلال بلوچ، جونیئر وائس چیئرمین استاد بابل لطیف ، ریڈیو زرمبش بلوچی کے ایڈیٹر سرباز وفا اور ریڈیو زرمبش براہوئی کے پبلشر زبیر بلوچ نے بھی حصہ لیا۔
اس موقع پر ڈاکٹر جلال بلوچ ، بابل لطیف، ھنکین کے ڈپٹی آرگنائز زھرہ بلوچ ، سرباز وفا ، زبیر بلوچ اور بی این ایم کے ممبر یاسر بلوچ نے شہدائے مرگاپ کی قربانیوں کی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا آج بلوچ قومی تحریک ریاست کے جبر کے باوجود دنیا میں کامیابی سے رواں ہے ، جو انہی راہنماؤں کی دن رات کی کوشش اور قربانیوں کی بدولت ہے۔
مقررین نے کہا بلوچ قوم کسی زمانے میں مارکس اور لین کے نظریات کی حامی تھی۔لیکن جب دنیا کے رجحانات تبدیل ہوئے تو ہر قوم نے اپنے مفادات کے مطابق پالیسی بنائی۔اسی طرح بلوچ قوم نے بھی اپنے قومی مفادات کو دیکھتے ہوئے قوم کی ترقی اور آزادی حاصل کرنے کے لیے ادارے قائم کیے۔ یعنی ، بی این ایم انہی قومی امنگوں کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔
انھوں نے کہا شہید غلام محمد نے بلوچ قوم کو بی این ایم جیسی تنظیم دی۔یہی تنظیم بلوچ کا ادارہ ہے۔یہی بی این ایم بلوچ قوم کے لیے قیادت پیدا کرئے گی۔ اگر ہمارے رہنماء شہید کیے جائیں تو ان کی جگہ کوئی اور آئے گا لیکن تحریک نہیں رکے گی۔ ماضی میں بلوچ قومی رہنماؤں کے پاس واضح وژن نہیں ہوتا تھا اس لیے بلوچ کی آزادی کی جنگ میں تیزی اور شدت بھی نہیں تھی۔ بلوچ قوم کا مسئلہ دنیا تک نہیں پہنچتا تھا بلکہ قلیل عرصے میں آزادی کی تحریک دب جاتی تھی۔ اگر آج تحریک کو بیس سال پورے ہوئے ہیں کہ پاکستانی فوج کے جبر کے باوجود منزل کی طرف رواں ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ بلوچ کے پاس ایک واضح وژن موجود ہے۔یہ شہید غلام محمد اور ساتھیوں کا دیا گیا وژن ہے۔
’’ واجہ غلام محمد کے خلاف دشمن اور اس کے پارلیمانی دوستوں نے طرح طرح کی سازشیں کی ہیں کہ غلام محمد ریاست کے کارندے ہیں یا اس نے سودا بازی کی ہے لیکن واجہ نے ان سازشوں کو مسترد کیا۔آپ بلوچ قومی آزادی اور بلوچ قوم کی آنے والی نسل کے لیے خوشحالی اور خودمختاری کے لیے ہر طرح کی سختی اور قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ اس لیے غلام محمد تاریخ میں امر ہوئے لیکن آپ آج بھی بلوچ قوم کی رہنمائی کر رہے ہیں کیونکہ واجہ ایک نظریہ ہیں اور نظریہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔آج بلوچ واجہ غلام محمد کے دیے ہوئے وژن کے ساتھ منزل کی جانب رواں ہے۔‘‘
مقررین نے کہا ھم اس وقت اپنی تنظیم اور اداروں کو مستحکم کرسکتے ہیں کہ ان کو وقت دیں۔ شہداء کی یاد میں ریفرنس رکھنے کے علاوہ اپنی تنظیم کے پروگرامات کا بھی باقاعدگی کے ساتھ انعقاد کریں۔ تنظیم کے اجلاس میں اپنی ماضی کی کمزوریوں کا جائزہ لیں اور سوچ و بچار کریں۔آئندہ کے اقدامات کے لیے پالیسی سازی اور تجاویز دے سکیں۔اگر ہم اپنے کام کو استحکام کے ساتھ برقرار رکھ سکیں تو ہم اپنی قوم کو خوشحال مستقبل دے سکیں گے۔ اور ہم اپنے قومی شہداء کی امنگوں کی تکیمل کرسکتے ہیں۔