شال : بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ اور بی ایس او کے ممبر اسد بلوچ کی جبری گمشدگی کے نوسال مکمل ہونے پر اپنے بیان میں کہا بی ایس او -آزاد ایک پر امن طلباء تنظیم ہے جس کے چیئرمین زاہد بلوچ اور ممبر اسد بلوچ کو 18 مارچ 2014 کو بلوچستان کے مرکزی شہر شال سے پاکستانی فورسز نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا ’’نو سال کا طویل عرصہ‘‘ گزرنے کے باوجود دونوں کے بارے میں تاحال کوئی معلومات فراہم نہیں کی جارہی۔
انھوں نے کہا اقوام متحدہ کے اداروں نے جبری گمشدگی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے لیکن اس کا ممبر ملک ’’ پاکستان‘‘ گذشتہ 75 سال سے بلوچستان میں جبری گمشدگی کو بلوچستان پر اپنے جبری قبضہ کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔بی ایس او-آزاد ، بی این ایم ، بی آر پی اور دیگر سیاسی اور سماجی تنظیموں کے ہزاروں کارکنان کو پاکستانی فوج نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ رکھا ہے۔اس کے باوجود اقوام متحدہ اپنے ممبر ملک کو انسانیت کے خلاف جرائم پر جوابدہ ٹھہرانے سے گریزاں ہے بلکہ اقوام متحدہ کے کئی ممبر ممالک پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔
بی این ایم کے ترجمان نے کہا زاہد بلوچ ایک متحرک بلوچ طلباء تنظیم کے سربراہ تھے جس کا بلوچ سماج پر گہرے اثرات ہیں۔بی ایس او نے بلوچ قوم کو تعلیم اور سیاست کا شعور دیا۔بی ایس او کی تعلیمات کے بدولت بلوچ سماج میں بنیاد پرستی اور مذہبی انتہاء پسندی کو جڑ پکڑنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ریاست پاکستان بی ایس او کے چیئرمین کو پابند سلاسل کرکے بلوچ قوم کو ذہنی غلامی اور پسماندگی میں دھکیلنا چاہتی ہے۔طالب علم ہر قوم کا مستقبل ہیں اس لیے ریاست پاکستان بلوچ قوم کے مستقبل کو تباہ کرنے کے لیے سب سے زیادہ بلوچ طالب علموں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنا رہی ہے اور ہزاروں طالب علموں کو تشدد کے بعد قتل کر چکی ہے۔
انھوں نے کہا بی این ایم زاہد بلوچ اور اسد بلوچ کی رہائی کے لیے انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ان نوجوانوں سمیت پاکستانی فوج کے پس زندان جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز مہم چلاکر پاکستانی فوج کے متعلقہ افسران کو عالمی عدالت انصاف سے سزا دلوائیں تاکہ مستقبل میں کوئی بھی قوت ریاستی طاقت کو انسانیت کے خلاف جرم کے لیے استعمال نہ کرسکے اور دنیا کے لیے ایک مثال قائم ہو۔
بی این ایم کے ترجمان نے آخر میں کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی چشم پوشی سے اقوام متحدہ اور عالمی قوانین پر انسانیت کا بھروسہ اٹھ چکا ہے۔اگر ریاست پاکستان کو بنگلہ دیش میں کیے گئے جرائم پر قصوروار ٹھہرا کر اس کے خلاف ٹھوس کارروائی کی جاتی تو آج اسے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کی جرات نہیں ہوتی، چیئرمین زاہد بلوچ اور اسد بلوچ جیسے نہتے اور پرامن طالب علم ٹارچر سیلز میں بند نہ ہوتے۔