بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے کہ آج سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ کی نویں برسی ہے۔ 30 جنوری 2016 کو پاکستانی قابض افواج نے انھیں مستونگ میں ان کے چار ساتھیوں سمیت قتل کرکے شہید کیا۔ ان کے ساتھ بابو نوروز، حنیف بلوچ، اشرف بلوچ اور ساجد جان بھی ریاستی جبر کا نشانہ بنے۔ اس دن عظیم رہنما ڈاکٹر منان بلوچ اپنے سیاسی کیڈر کے ساتھ پارٹی کے سیاسی دورے پر تھے۔ بلوچ سرزمین کی آزادی کے لیے برسرپیکار ایک گرج دار اور توانا آواز پاکستان کے لیے قطعی ناقابل برداشت تھے۔ اس گرجدار اور توانا آواز کو بندوق کی طاقت سے خاموش کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا ڈاکٹر منان بلوچ محض ایک سیاسی رہنما نہیں تھے بلکہ وہ ہماری قومی تحریک کی فکری بنیاد اور نظریاتی ستون تھے۔ وہ ایک صاحبِ کثیرالمطالعہ اور بصیرت افروز انسان تھے، جنہوں نے شعوری طور پر اپنی زندگی بلوچ قوم کی آزادی کے لیے وقف کی۔ بطور ڈاکٹر وہ ایک آرام دہ اور بظاہر محفوظ زندگی گزارنے کا انتخاب کر سکتے تھے لیکن ان سے بلوچ سرزمین کی غلامی اور خطرے سے دوچار قومی بقا و تشخص دیکھا نہ گیا اور انہوں نے جدوجہد کے خار دار راستے کا انتخاب کیا۔ ان کی سوچ، ان کی جدوجہد اور ان کے نظریات انہیں خاموش تماشائی بننے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ وہ اپنی آخری سانس تک آزادی، انصاف اور قومی وقار کے اصولوں پر قائم رہے اور اسی راہ میں اپنی جان دیدی۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا پاکستانی ریاست نے ڈاکٹر منان بلوچ کو اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ وہ اس کے جابرانہ قبضے اور استعماری حکمرانی کے خلاف ایک ناقابلِ تسخیر آواز تھے۔ ان کا قتل محض ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ بلوچ قوم کے خلاف جاری جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور منظم نسل کُشی کی پالیسی کا تسلسل تھا، جس کا مقصد آزادی کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کرنا ہے مگر قابض ریاست اپنے مقصد میں ناکام ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر منان بلوچ کا قتل ان کی جدوجہد کا خاتمہ نہیں بلکہ بلوچ قومی مزاحمت کے عزم کو مزید جِلا بخشنے کا سبب بنا ہے۔ ان کی قربانی نے نئی نسل میں بیداری پیدا کی ہے اور وہ اس مشن کو مزید جرات اور استقلال کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا یہ دن بلوچ قومی تحریک کے اس عزم کی تجدید کا دن ہے جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ڈاکٹر منان بلوچ کا خواب آزاد بلوچستان محض ایک خیال نہیں رہے گا بلکہ حقیقت بنے گا۔ ہم ثابت کریں گے کہ ان کا خون رائیگاں نہیں گیا بلکہ وہ ہماری جدوجہد کی زمین کو سیراب کر چکا ہے۔ ان کا نظریہ ہر اس بلوچ کے شعور میں زندہ ہے جو جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرتا ہے اور اپنی سرزمین پر آزادی، وقار اور خودمختاری کے لیے مزاحمت کر رہا ہے۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بلوچ نسل کشی اور بہتے لہو عالمی ضمیر سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں پاکستان کی ریاستی دہشت گردی اور جنگی جرائم کو تسلیم کرے اور مظلوم بلوچ عوام کے ساتھ یکجہتی کا عملی اظہار کرے۔ عالمی ضمیر جتنی دیر تک خاموش رہے گا، اس پر بلوچ لہو کا قرض بڑھتا جائے گا۔ انھیں خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیے کیونکہ پاکستان اور اس کی درندہ افواج بلوچ قوم کے خلاف قتل و غارت، جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تسلسل میں مزید شدت لارہے ہیں۔ بلوچ قوم انصاف اور آزادی کے لیے لڑ رہی ہے اور دنیا پر لازم ہے کہ وہ جبر کے خلاف اس جدوجہد میں ہماری آواز بنے۔
انھوں نے کہا گوکہ ڈاکٹر منان بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو گولیوں سے خاموش کر دیا گیا مگر خیالات اور نظریات کو موت نہیں دی جا سکتی۔ وہ آج بھی زندہ ہیں۔ ڈاکٹر جان اور ساتھی ہر اس سوچ میں زندہ ہیں جو غلامی کو مسترد کرتی ہے، ہر اس قدم میں رواں دواں ہیں جو آزادی کی جانب بڑھ رہا ہے اور ہر اس آواز میں زندہ ہیں جو جبر کے خلاف بلند ہوتی ہے۔ ان کی قربانی بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ میں امر ہو چکی ہے اور وہ ایک چراغ کی طرح ہماری راہ کو روشن کرتی رہے گی۔ جب تک ایک بھی بلوچ غلامی کے خلاف سینہ سپر ہے، ڈاکٹر منان بلوچ کی سوچ زندہ ہے اور ان کی جدوجہد جاری ہے۔ فتح ناگزیر ہے کیونکہ جبر کے دن ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتے مگر آزادی ہر باشعور قوم کی لازوال مقاصد میں سرفہرست ہے۔