جرمنی میں بلوچ پناہ گزین عاطف علی کو ممکنہ ملک بدری کا سامنا ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) نے اسی تناظر میں جرمن حکام کو ایک خط بھیج کر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
خط میں، بی این ایم کے سیکرٹری خارجہ، ھمل حیدر نے متعلقہ حکام کو عاطف علی کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا جن کا انھیں پاکستان جانے کی صورت سامنا ہو سکتا ہے۔
بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ایک پوسٹ میں ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بلوچ عوام کی حالت زار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا بلوچ عوام ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں اس لیے وہ ان مظالم کے خلاف پناہ تلاش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے اور انسانی حقوق کمیشن سے اپیل کی کہ وہ اس پریشان کن معاملے کو حل کرنے کے لیے فوری مداخلت اور ضروری اقدامات کریں۔
بی این ایم کے خارجہ سیکریٹری ھمل حیدر نے ایک درخواست میں جرمنی کے ’وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور مہاجرین‘ سے بلوچ سیاسی کارکن عاطف علی کی ملک بدری روکنے کی فوری اپیل کی ہے۔ عاطف علی بلوچ عوام کے حقوق کے لیے اپنی سرگرمیوں کے لیے جانے جاتے ہیں، ایک ایسی قوم کے لیے جسے پاکستان کی طرف سے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں اور ظلم و ستم کا سامنا ہے۔
خدشات ہیں کہ کہ اگر انھیں پاکستان واپس بھیج دیا جاتا ہے تو انھیں ہوائی اڈے پر پاکستانی حکام کی جانب سے اغوا کرنے کا فوری خطرہ ہے۔ ھمل حیدر انصاف، انسانی حقوق، اور بین الاقوامی انسانی معیارات کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں اور دفتر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان کی ملک بدری پر نظر ثانی کرے اور عاطف علی کی زندگی کی حفاظت کرے۔
درخواست میں عاطف علی کے کیس کا مکمل جائزہ لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور ان سنگین نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے جو انھیں پاکستان واپس بھیجے جانے پر درپیش ہیں۔ اپیل میں امیگریشن اور اسائلم کے معاملات میں ہمدردی، رحم اور انسانی حقوق سے وابستگی کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
ھمل حیدر نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جرمنی کا وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور پناہ گزین اس اپیل پر سنجیدگی سے غور کرے گا اور انصاف، امن اور انسانی حقوق کی ان اقدار کی عکاسی کرنے کے لیے عمل کرے گا جن کو عالمی برادری برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔