شال : مبارک قاضی کی پچاس سالہ شاعری کا سفر بلوچ کے رنگ میں رچا ہے اس لیے آج ان کی وفات پر بلوچ قوم سوگ میں ہے۔
یہ باتیں بلوچ نیشنل موومنٹ کی طرف سے منعقدہ ’ ایکٹیوسٹ اسمبلی‘ ( جھدکارانی پتر) کی نشست سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کیں۔
پارٹی کے سینئرجوائنٹ سیکریٹری جنرل چیئرمین کمال بلوچ کی طرف سے منعقد کیے گئے اس پروگرام کا آغاز مبارک قاضی کے احترام میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوا۔ بی این ایم کے ممبران اور کابینہ کے ذمہ داران نے مبارک قاضی کے کردار اور ادبی خدمات پر انھیں خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کیا۔
ڈاکٹرنسیم نے کہا اسی کی دہائی سے لے کر موجودہ زمانے تک ، مبارک قاضی کی قریبا پچاس سال کی شاعری کے سفر میں ان کی شاعری انقلاب ، مزاحمت اور بلوچ کے رنگ میں رچی شاعری تھی۔قاضی ان افراد میں سے تھے جو خود بھی قومی سیاست میں شامل تھے، جیل کاٹی ، تشدد برداشت کیا۔اس کی جہد سے وابستگی کی ایک نشانی ان کے بے مثل فرزند ڈاکٹرکمبر قاضی تھے کہ انھوں نے بھی مزاحمت کی راہ اپنائی اور شاعری میں بھی اپنی اہلیت کا تجربہ کیا۔انھیں مبارک قاضی کی طرف سے ترغیب، حوصلہ افزائی اور تربیت ملی تھی۔یہ بھی قاضی کی مزاحمت میں شمولیت کی مثال ہے۔
انھوں نے کہا آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچ قاضی کی موت سے پریشان ہیں۔وہ قاضی جو مختلف کردار کے مالک تھے، وہ جو منھ پر بات کہنے والے شخصیت تھے۔انھوں نے ہمیشہ اپنی بات بغیرکسی لگی لپٹی کے اپنے مکمل جذبات کے ساتھ کہی۔کسی کی خاطر کرنا، جھوٹ بولنا اور کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی بات کرنا قاضی سے کوسوں دور تھے۔ان کی انہی خوبیوں کی وجہ سے وہ عوام کو عزیز تھے ۔ ان کے دوسرے فعل کہ لوگ کہتے تھے یہ ہمیشہ ہاتھ میں شراب کی بوتل لے کر گھومتے ہیں ، آج ان باتوں کو لوگ بھول رہے ہیں۔کیونکہ ان میں اور ہزاروں خوبیاں تھی جو اس طرح کی چیزوں کو ڈھانپتی تھیں۔
بی این ایم کے چیئرمین نے مبارک قاضی کے ساتھ بلوچ قوم کی محبت کی مثال دیتے ہوئے کہا آج آپ نے دیکھا کہ پسنی میں انجمن تاجران نے ان کے احترام میں اپنی دکانیں بند کی ہیں، یہ کام پورے بلوچستان میں ہونا چاہیے تھا۔ تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے ان کی وفات پر اپنے غم کا اظہار کیا ہے۔ان کا عظیم الشان کردار تھا کہ آج وہ اس طرح یاد کیے جاتے ہیں۔