بلوچ تحریک میں قیادت کے کردار کے موضوع پر بلوچ نیشنل موومنٹ یوکے چیپٹر کی طرف سے اسٹڈی سرکل کا اہتمام کیا گیا جس میں اصغر بلوچ مہمان مقرر اور کے پی بلوچ منتظم تھے۔
اس نشست میں مقامی اور عالمی سطح پر بلوچ تحریک کے لیے تبدیلی اور پیشرفت کے قیادت کے موثر کردار کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔
اس نشست میں مقررین کے خیالات کو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے لیکن ان خیالات کو پارٹی موقف یا بیانیہ کے طور پر دیکھنے کی بجائے ایک علمی مباحث کے طور پر پڑھا جائے جو اس بحث میں شامل ممبران نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر پیش کیے ہیں۔
’لیڈرشپ ایک اہلیت ہے جو کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے۔‘
مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا لیڈرشپ کسی ایک یا ایک سے زیادہ لوگوں کے ایک تنظیم پارٹی یا طبقے کی پیروکاروں یا ٹیم کے ارکان پر اثر انداز ہونے اور رہنمائی کرنے کی صلاحیت کو کہتے ہے۔ لیڈرشپ ایک اہلیت ہے جو کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے یہاں تک کہ وہ لوگ جو پارٹی عہدوں کے بغیر ہیں قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ ایک قابل ترقی مہارت ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر اور کبھی کبھار زوال کا شکار بھی ہوسکتی ہے۔
دنیا میں جتنی بھی تحریکیں چاہے نظریاتی ہوں یا غیر نظریاتی ان کی کامیابی میں لیڈرشپ کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔مثال کے طور پر سکندر یونانی نے چھوٹی عمر میں آدھی دنیا فتح کرلیا تھا جو اس کی قائدانہ صلاحیت کی بدولت ممکن ہوا۔
اسی طرح اگر ہم سویت روس ، کمیونسٹ چین ویتنام اور کیوبا کی مثالیں دیکھیں تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ان تحریکوں کی کامیابی میں ان کی لیڈرشپ کا اہم کردار رہا ہے۔ ان ممالک کی لیڈرشپ نے حالات کا درست تجزیہ کرکے اپنے فیصلے لیے اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔حالانکہ دنیا میں قومی آزادی اور طبقاطی تحریکیں سینکڑوں کی تعداد میں شروع ہوئیں اور حق پر ہونے کے باوجود درست لیڈرشپ نہ ملنے کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہوئیں۔
یہاں ماؤزے تنگ کی مثال قابل غور ہے جس نے لانگ مارچ ساٹھ ہزار لوگوں کے ساتھ شروع کی اور آخر میں اس کے ساتھ چھ ہزار افراد بچے مگر یہ ماؤزے تنگ اور کمیونسٹ پارٹی آف چائینا کی لیڈرشپ تھی جس نے درست رہنمائی کرکے پورے چین کو متحد کیا اور انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے ۔ دوسری طرف سری لنکا کے تامل ٹائیگرز منظم اور طاقتور ہونے کے باوجود لیڈرشپ کی غلط فیصلوں کی وجہ سے ناکام ہوئے بلکہ کچلے گئے۔
اگر ہم آج بلوچ قومی تحریک کو دیکھیں تو سن 2000 سے لےکر آج 2023 تک، سخت اور مشکل حالات میں کہ ریاستی مظالم اور نسل کشی کے باوجود مستقل مزاجی اور کامیابی کے ساتھ جاری ہے تو یہ بلوچ لیڈر شپ کے فکر و فلسفہ اور جدجہد کا نتیجہ ہے۔ بلوچ قومی تحریک کو کاونٹر کرنے کے لیے ریاست اپنی پوری قوت استعمال کررہی ہے۔ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنان کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی بلوچ لیڈر شپ نے ان تمام مظام کا مستقل مزاجی سے سامنا کیا اور بلوچ نوجوانوں کی فکری رہنمائی کررہے ہیں۔
آج بلوچ قومی تحریک میں ڈاکٹر نسیم جیسے لیڈر موجود ہیں جو مشکل وقت میں اپنی قوم کی رہنمائی کررہے ہیں۔ لیڈرز اداروں کے اہم ستون ہیں جو اداروں میں مرکزیت اور تنظیم برقرار رکھتے ہیں۔ادارے اس اہم ستون (قیادت) کے بغیر قائم نہیں کیے جاسکتے اور اداروں کے بغیر کوئی بھی قومی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اپنی منزل تک پہنچ سکتی ہے ۔لیڈر اپنی فکر اور شعور سے حکمت عملی اور سائنسی پروگرام کے تحت اپنی قوم کو لیڈ کرتا ہے اور اس میں سیاسی فیصلہ لینے کی صلاحیت ہوتا ہے جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی چٹان کی طرح مضبوطی سے کھڑا ہوتا ہے اور اپنے قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔