بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ 11اگست کو بلوچستان کی یوم آزادی کی مناسبت سے مرکزی سطح پر ایک آن لائن لیکچر پروگرام جبکہ زونل سطح پر بلوچستان کے علاوہ جرمنی کے شہر گوٹنگن میں احتجاجی مظاہرہ اور آگاہی مہم کا اہت
مام کیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ مرکزی آن لائن دیوان سے پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ، ڈائسوپرہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ، کینیڈا زون کے ڈاکٹر ظفر بلوچ، جرمنی زون کے اصغر بلوچ اور سنٹرل کمیٹی کے رکن واجہ یوسف بلوچ نے خطاب کیا۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے کہا بلوچستان پر برطانوی قبضہ ہندوستان پر قبضہ سے مختلف تھا کیونکہ بلوچستان پر برطانوی قبضہ اسٹریٹیجک یا تزویراتی مفادات کے لئے تھا۔ برطانیہ بلوچستان کی جغرافیہ کو اپنے مقاصد کے لئےاستعمال کرنا چاہتاتھا۔ ہندوستان پر برطانوی قبضے کے دوران قبضہ گیریت کی نقصانات اپنی جگہ، برطانیہ نے ہندوستان میں وسائل کا، ثقافت کا،افراد ی قوت کابے پناہ استحصال کیا۔ لیکن آپ کو ہندوستان یا موجودہ پاکستان میں برطانوی دورمیں کافی سماجی ترقی بھینظرآتاہے۔ برطانوی دور میں کالج بنے، سکول بنے، یونیورسٹی بنے، سڑک، دنیا کا طویل ریلوے لائن، دنیا کا طویل نہری نظام بن گئے۔ ہندوستان میں سیاسی آزادی تھی،ثقافتی حوالے سے بہت کام ہوا،لیکن بلوچستان میں یہ سب کچھ اس کے برعکس تھا۔ یہاںبرطانوی دور میں نہ تو آپ کو سکول، کالج نظر آتاہے نہ ہی سڑک یا ریلوے لائن۔ اکلوتا ریلوے لائن بنا وہ بھی بلوچ کے سماجی ضرورت کے لئے نہیں بلکہ وہ تزویراتی یا عسکری ضروریات کے لئے تھا۔اس کے علاوہ کوئی عوامی یا فلاحی منصوبہ نہیں بنا۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ کا سارا زور یہاں اپنی عسکری موجودگی پر تھا۔ بعد میں انہوں نے سرداروں کو اپنی تابع فرمان بناکراپنے ملٹری پر بوجھ کم کیا۔ برطانوی دور میں یہاں سیاسی آزادی عنقا تھا۔ یہاں علم و ادب کے حوالے سے مواقع ناپید تھے۔ یہاں اخبار چھاپناتو اپنی جگہ اخبار پڑھنا تک ممنوع تھا۔ اگر ڈاک کے ذریعے خفیہ اخبار یا رسالہ منگوایا جاتا تو اس پر چھاپے پڑتے اوروہ مواد ضبط کرلیاجاتااورجرمانہ بھی کیاجاتا۔
دل مراد بلوچ نے کہا جب پاکستان نے مختصر آزادی کے بعد بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا تو انہوں نے برطانوی وراثت کو آگے بڑھایا۔ آج بھی پاکستانی قبضہ کافی حد تک تزویراتی ہے کیونکہ بلوچستان کے جغرافیہ کے بغیر پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہے۔ انستر سالوں میں چند ایک شہروں کے علاوہ کہیں سماجی ترقی نظر نہیں آتی، لیکن پورے بلوچستان کے طول وعرض میں عسکری موجودگی یقینا نظر آتی ہے۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ آج بلوچ سرزمین پرپاکستان کو اپنی قبضہ برقرار رکھنے میں چین سمیت مختلف اتحادیوں کا حمایت حاصل ہے۔ آج بلوچ کے دشمن ظاہر ہوچکے ہیں۔ وہ دنیاکے سامنے بھی عیاں ہوچکے ہیں۔ سی پیک نے بلوچستان کو عالمی نگاہوں کا مرکز بنا دیاہے۔ پاکستان ہو، پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیارہوں، پاکستان کے پراکسی ہوں، پاکستان کے پراکسی بھی دنیا کے لئے نیوکلیئر ہتھیار سے کم نہیں ہیں۔آج بلوچ جدوجہد نے ان تمام خطرات کو دنیا کے سامنے عیاں کردیا ہے یہ بلوچ جدوجہد کی کامیابی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم قبضہ کے اولین دور یا ستر کے دہائی کے حالات کا آج کے حالات سے تقابلی جائزہ لیں توآج حالات بہت مختلف ہیں۔ کل تنہا بلوچ پاکستان کے خلاف برسرپیکار تھا، آج سندھیوں کی جدوجہد کا واضح شکل سامنا آ رہا ہے۔ آج سندھیسیاسی اور مسلح محاذ میں لڑرہے ہیں۔ پشتون ایلیٹ کے مفادات پاکستان سے ضرور وابستہ ہیں لیکن آج پشتون عوام میں پاکستان کے خلاف نفرت بڑھ چکاہے۔ اگر خطے میں حالات کا جائزہ لیاجائے تو ہندوستان ماضی کے ہندوستان سے مختلف ہے۔ آج کاافغانستان بھی ایک مختلف افغانستان ہے۔ چند روز قبل افغانستان کے مختلف شہروں میں ہزاروں لوگ پاکستان کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
دل مراد بلوچ نے مسلح جدوجہد کے حوالے سے کہا بلوچ نے تاریخ کے مختلف مراحل میں جارح قوتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی ہے۔ پاکستان کہتاہے کہ بلوچ ”را“ کی مدد سے لڑرہے ہیں۔ جبکہ ”را“ کا وجود تک نہ تھا، بلوچ لڑتے رہے ہیں۔ 1839ہو، یا اسسے قبل،مسلح جدوجہد بلوچ تاریخ، بلوچ ثقافت یا بلوچ نفسیات کا ایک جزو یا ایک حصہ ہے۔ بلوچ مسلح محاذ کو عالمی قوانین و اقدار کا ہر صورت خیال رکھنا چاہئے۔ مسلح جدوجہد کی اہمیت کا دفاع کرنا چاہئے۔ ہمیں پاکستان کی جارحیت کا احساس کرنا چاہئے۔بلوچ قوم کی تشدد جوابی اور مزاحمتی ہے۔ اس کا آغاز پاکستان نے کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان بیس سالوں میں پاکستان نے بلوچ جدوجہد کو کچلنے کے لئے تمام حربے استعمال کئے ہیں۔ نسل کشی جاری ہے، گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے جاچکے ہیں۔ پاکستان بلوچ قوم کو اجتماعی سزا کے عمل سے گزار رہاہے۔ ہزاروں لوگلاپتہ کئے جاچکے ہیں۔ ہمسایہ ممالک میں جنگیں چل رہی ہیں لیکن کہیں بھی لوگوں کو اس طرح غائب نہیں کیا جاتا ہےجیسا کہ پاکستان کر رہا ہے۔ کہیں بھی لوگوں کو اجتماعی سزا کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے۔ اس تمام وحشت و بربریت کے باوجود پاکستان ہماریجدوجہد کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکاہے۔ آج بھی بلوچستان کے شہروں میں، بلوچستان کے دیہی علاقوں میں کارکنوں کی ایک وسیع کھیپ موجود ہے۔ عوامی وابستگی برقرار ہے جو بلوچ قومی تحریک کے کامیابی کی نوید ہے۔
آن لائن دیوان سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم ایک آزاد ریاست کا مالک تھا۔ بلوچ کا اپنا تہذیب و ثقافت ہے۔ پاکستان نے ہماری آزادی سلب کرکے ہمیں غلامی میں دھکیل دیا۔ آج بلوچ قوم نہ صرف زندگی کے تمام خوشیوںسے محروم ہے بلکہ اسے اپنے قومی زبان میں پڑھنے، لکھنے اور بولنے کی آزادی بھی میسر نہیں۔ ان حالات میں ساجد حسین بلوچ جیسے تمام لوگ جو جلاوطنی اختیار کرچکے ہیں، انہیں کہیں بھی کوئی گزند پہنچتی ہے تو اس کی ذمہ داری ریاست پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔کیونکہ یہ قابض ریاست اور غلامی کی ہی وجہ ہے کہ بلوچوں کو اپنی سرزمین سے دور کہیں اور پناہ لینے پر مجبور کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ مختصرآزادی کے بعد غلامی اور غلامی کے خلاف ہماری جدوجہد کی طویل تاریخ ہے۔ بنیادی طورپر ہماری تاریخ کافی حد تک تحریری صورت میں موجود ہے اور اکثر سیاسی اسٹڈی سرکلوں میں زیر بحث آتاہے۔ ہمارے لئے اہم یہ ہے کہموجود عالمی صورت حال کے تناظر میں اپنے داخلی حالات کو دیکھیں۔ ہماری قومی جدوجہد آزادی کے پیچیدگی، سمت اورمستقبل کے حوالے سے حکمت عملی و منصوبہ بندیوں کا جائزہ لیں کہ اب تک ہم نے کیا کیا ہے اور آگے کیا کرنا چاہئے۔ اس جائزہ کے بعد ہماس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہمیں بلوچستان اور عالمی سطح پر چند ایک اقدامات کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ ایک قوم کے لئے اپنی قومی آزادی کے لئے اولین شرط ایک قوم کا اکثریت کا شعوری طور پر آزادی کے خواہش مند ہونا ہے اور یہ شعوری خواہش اس کے سماج کے اقدار سے منسلک ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو بیرونی امداد قطعا کسی قوم کو آزادینہیں دلا سکتاہے۔ موجودہ دور اور تاریخ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ بلوچ قوم اپنی قومی آزادی کے لئے والہانہ جذبات رکھتا ہے اوراس مقصد کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا ہے۔ ستر سالوں سے بلوچ قوم جدوجہد کررہا ہے۔ ہم برطانیہ کےزمانے سے لڑرہے ہیں۔بلوچ مزاحمتی تاریخ میں سیاسی و جمہوری جدوجہدتاریخ کے حصے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مزاحمت کو موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں کہ بلوچستان کی جدید مزاحمتی تاریخ 1839 کو برطانوی نوآبادیاتی تسلط کے خلاف شروع ہوئی تھی۔ یہ اس بات کا کھلا اظہار تھا کہ ہم بیرونی قبضہ گیریت کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے۔یہ ہم جانتےہیں کہ فتح و شکست جنگوں کا لازمی جزو ہوتے ہیں۔ بعض جنگوں میں شکست بھی ہوتا ہے۔ یہ شکست سیاسی بھی ہوسکتا ہے اورعسکری بھی ہوسکتا ہے۔ بلوچوں نے بہت سی جنگیں لڑی ہیں اور شکست بھی کھائی ہے۔ اس کی اپنی اپنی وجوہات ہیں جو ہر دورکے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ آج جو صورت حال ہے وہ 1839میں نہیں تھا۔ یا آج جو صورت حال ہے وہ 1948کو نہیں تھا جب پاکستان نے بلوچ سرزمین پر قبضہ کرلیا۔ آج ستر سالوں میں حالات کافی بدل چکے ہیں۔ ان حالات کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنی حکمتعملیوں اور منصوبہ بندیوں کا جائزہ لینا چاہئے۔
ڈاکٹر ظفربلوچ نے کہا جدید دور کے تناظر میں دیکھیں، یعنی سترسالوں میں ہماری جدوجہد کے دو اہم قوت رہے ہیں۔ سب سے پہلی اور بڑی سیاسی جمہوری وعوامی جمہوری محاذ رہا ہے۔ دوسرا حصہ مزاحمتی قوت یا دفاعی فورسز رہے ہیں۔ دفاعی تنظیم مسلح تنظیمہیں۔ اگرمسلح تنظیموں کا سائنسی نطقہ نظر سے جائزہ لیں تو ہمیشہ سیاسی پلیٹ فارم کے تابع ہوتے ہیں۔ سیاسی پلیٹ فارم، سیاسی تنظیم پوری نوآبادیاتی تسلط اورقبضہ گیر قوتوں کے خلاف عوامی جددجہد کو آگے بڑھاتے ہیں اور مسلح یا دفاعی قوت اس کا ایک حصہاور جزو ہوتا ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ کسی قوم کا ایک سیاسی حکومت ہے تو دوسری اس کی افواج ہے جو سیاسی حکومت کے تابع ہوتا ہے۔ گزشتہ ساٹھ ستر سالوں سے دنیا میں ہمیں یہی صورت حال نظر آتا ہے۔
انہوں نے کہا ہماری جدوجہد کے کامیابی کا دارومدار اس بات پر منحصر ہے کہ آپ دشمن کو کس حد تک معاشی یا سیاسی نقصان پہنچا کر بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرسکتے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ اس میں جدوجہد کے دونوں اہم قوت یعنی سیاسی و جمہوریمحاذ اورمسلح محاذ اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور بات یہاں پہنچتی ہے کہ دشمن کے لئے آپ پر قبضہ معاشی حوالے سے منافع بخش نہیں رہتا اوردشمن اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ معاشی نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ جس مقصد کے لئے قبضہ کیا اب وہ خسارے کا سبببن گیاہے اور وہ قبضہ گیریت کے لئے مزید قیمت نہیں چکا سکتا ہے۔ آپ کا سیاسی جدوجہد اتنا واضح اور موثر ہو کہ خطے میں اور بین الاقوامی سطح پر آپ اپنی حیثیت منواسکیں اورقابض بین لاقوامی سطح پریا بین لاقوامی فورمزپر اپنی قبضہ گیریت کو جسٹیفائی نہیںکرسکے۔
ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ دفاعی محاذ یا دفاعی فورسز کا ہدف کبھی بھی دشمن کو عسکری شکست دینا نہیں ہوتا ہے، بلکہ ان کا ہدف ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن کو چین سے بیٹھنے نہ دیں تاکہ ہروقت حمل و نقل سے اس کے عسکری اخراجات ناقابل برداشت ہوجائیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی محاذ بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ، یورپی اورمغربی ممالک کے سامنے تنازعہ کے حل کے لئے ایک پرامن حل پیش کرے کہ ہم ایک مقبوضہ قوم ہیں۔ قبضہ گیرکے ظلم وستم کا شکار ہیں اور ہم پر تشدد کا آغاز دشمن نے شروع کیا ہےاوراس تشدد کے خلاف ہم جمہوری و سیاسی جدوجہد کررہے ہیں لیکن دشمن نہ صرف سیاسی و جمہوری آواز سننے کے تیار نہیں بلکہ سیاسی آواز کو کچل رہا ہے۔ اس وقت فریق ثانی قطعا پرامن حل کے لئے قائل نہیں ہوتا ہے لیکن اس سے آپ کو بین الاقوامیحمایت حاصل کرنے میں بہت ہی مدد ملے گا۔
ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ بلوچ کا موقف ہے کہ پاکستان ایک قبضہ گیر قوت ہے اور جب تک ایک قبضہ گیر قوت بلوچستان میں موجود ہے، اس وقت تک پر امن حل نہیں ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ہم عالمی اداروں مثلاََ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف پر یہ واضح کریںکہ ہم پرامن حل کے لئے تیار ہیں لیکن پاکستان ایک قبضہ گیر قوت ہے اور پاکستانی فوج نے 1948سے ہماری سرزمین پر قبضہ کیا ہوا۔ لہٰذا کسی بھی قسم کی پرامن حل کے لئے ضروری ہے کہ قبضہ گیر بلوچستان سے انخلا کرکے 1948کی پوزیشن پر چلا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری طویل جدوجہد ہے جو مختلف صورتوں میں ستر سالوں سے نشیب وفراز کے باوجود جاری ہے اورپاکستان نے 1948سے لے کرآج تک جتنے معاہدات کئے ہیں، سب سے انحراف کیا ہے۔ پاکستان نے سب سے پہلے ہماری جمہوری ایوانوںکے فیصلے کو روند کر ہماری سرزمین پر قبضہ کیا۔ اس سے قبل بھی ہماری جتنے معاہدات برطانیہ سے ہوئے تھے، وہ سب تاریخی دستاویزی صورت میں موجود ہیں۔ عالمی سطح پر اپنے مقدمے کو پیش کرنے کے لئے یہ تمام ہمارے سیاسی مقدمے کا حصہ ہیں۔
ڈاکٹر ظفربلو چ نے کہا کہ انخلا کے دوران برطانوی سلطنت جانتا تھا کہ ہندوستان ایک قوم پرستانہ جدوجہد کے نتیجے میں آزاد ہوکر قومی ریاست بنے گا اور مستقبل میں ان کے شرائط پر کام نہیں کرے گا اور کانگریس اپنے سوشلزم کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے سوویتیونین کا اتحادی بنے گا تو انہوں نے پاکستان کا قیام عمل میں لایا۔ برطانیہ کو خدشہ تھا کہ بلوچستان کو آزادی ملی تو وہ سوویت یونین کے زیر اثر ہوگا۔ اس وقت بلوچ لیڈرشپ بھی سوشلزم کی جانب مائل تھا۔ لہٰذا برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو بحیرہ عرب یا اسخطے میں سوویت یونین کی اثر ونفوذ قبول نہیں تھا۔ اس لئے تمام معاہدات کے باوجود ہمیں کوئی ایسی علامت نظر نہیں آتا ہے کہ برطانیہ بلوچ وطن کی مکمل آزادی کا قائل تھا۔ چھیالیس، سینتالیس تک بلوچ لیڈرشپ کے ہندوستانی لیڈرشپ سے بات چیت کےدور چلے ہیں۔ بلوچ لیڈرشپ نے جس سطح پر ہندوستانی قیادت سے مدد کی مانگ کی تھی، ان کی جانب سے ہمیں مدد نظر نہیں آتا ہے۔
انہوں نے کہا ہماری قومی آزادی کے جدوجہد کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ بلوچ سیاسی یکجہتی کو قائم رکھیں۔ اس پہ زیادہ کام کریں اوراپنی سیاسی پلیٹ فارم کو اتنی موثر و منظم کریں کہ اس کے ذریعے ہم عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ مدد حاصل کرسکیں۔کیونکہ ماضی میں ہماری تحریک کی ناکامی میں ایک اہم عنصر بین الاقوامی امداد کی عدم موجود گی ہے۔ آج حالات بدل چکے ہیں۔ آج منظم سیاسی پلیٹ فارم کے ذریعے عالمی امداد کی حصول میں کامیابی کی امید ماضی سے بہت زیادہ ہے۔
جرمنی زون کے جنرل سیکریٹری اصغر بلوچ نے کہا کہ جب بھی تاریخ لکھا جاتا ہے، ہر قوم اپنے مفادات و ترجیحات کے تناظرمیں لکھتا ہے۔ جب ہم دنیا یا یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے لئے نوآبادیاتی دور ختم چکا ہے اور مابعد نوآبادیاتی دور چل رہاہے۔ لیکن ہمارے لئے نوآبادیاتی دور اب بھی باقی ہے کیونکہ یورپی نوآبادیاتی دور کا رویہ آج بھی بلوچستان میں زندہ وبرقرارہے۔ پاکستان خوداس خطے میں نوآبادیاتی دور کا تشکیل کردہ ریاست ہے۔ بلکہ ریاست سے زیادہ ایک کارپوریشن ہے جسے فو ج چلاتا ہے۔برطانوی نوآبادیاتی دورمیں برطانوی ہندوستان جن مظالم کا تصورتک نہیں کرتا تھا آج پاکستان نے وہ تمام مظام و بربریت بلوچستان میں روا رکھے ہیں۔ برطانوی ہندوستان میں بھگت سنگھ پارلیمان میں بم پھینکے کے بعد گرفتار کیا جاتا ہے، جیل میں رکھا جاتا ہے،لیکن اسے دس پندرہ سالوں تک غائب تو نہیں کیا جاتا ہے۔ آج بلوچستان میں ایک عام سیاسی ورکر سالوں سے لاپتہ ہیں۔
اصغر بلوچ نے کہا پاکستان کا نوآبادی رویہ برطانوی نوآبادیاتی نظام سے زیادہ خطر ناک اورجارحانہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوآبادکار مقبوضہ خطے پر کس طرح اپنی جبر روا رکھتا ہے یا اس کی کیا شکلیں ہیں۔ بقول ایڈورڈ سعید ”قبضہ اور تسلط جمانے کے بعدنوآبادی قوت مقبوضہ قومیت کے ثقافت و اقدار کو مٹانے کا آغاز کرتا ہے۔ اور نفسیاتی طوپر یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ آپ تاریخی، علمی، ثقافتی حوالے سے کمتر ہیں تاکہ نفسیاتی طورپر آپ کو شکست سے دوچار کرسکے۔ اس عمل کے مسلسل جاری رہنےسے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ مقبوضہ قوم یہ سوچنا شروع کرتا ہے کہ وہ واقعتا کمزور ہے۔ مثلا آج سے بیس سال قبل ہم بھی یہی سوچتے تھے کہ پنجابی علمی یا دیگر میدانوں میں ہم سے زیادہ اہل اور قابل ہے لیکن حقیقت میں یہ جبر اور ثقافتی و علمی میدان میںاس کے مسلسل حملوں کا نتیجہ تھا۔
انہوں نے کہا یورپی نوآبادی دور میں یہ نعرہ لگایا جاتا تھا کہ ”سفید فارم کی ذمہ داری ہے کہ افریقی، ہندوستانی یا ریڈ انڈینز کو مہذب بنانا ہے۔ آج ہم پاکستان کو دیکھ لیں تو وہ بھی بلوچستان میں یہی کچھ کر رہا ہے۔ پاکستان کہتاہے کہ وہ بلوچ کو ترقی دینا چاہتاہے۔ بلوچ کو علم دینا چاہتا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ آپ کی ثقافت کو تباہ کررہا ہے، تہذیب کو مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔ بلوچی زبان میں تعلیم پر بندش سے زبان سے محبت کو ختم کر رہا ہے جو نیشنلزم کا ایک بنیادی ستون ہے۔ دشمن کی کوشش ہے کہ بلوچکو اس کی حقیقی تاریخ سے دور کیا جائے اور ہم جس قدر اپنی تاریخ سے دور چلے جائیں گے تو دشمن کا کام آسان ہوگا۔
اصغر بلوچ نے کہا کہ ثقافتی یا نفسیاتی حملوں کے علاوہ فوجی جارحیت بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے اور وہ آپ کے جغرافیائی حدود میں رد و بدل کرتا رہتا ہے۔ اگر ہم 1948 سے 1972 تک جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس دورانیے میں بندوبستپاکستان میں ہماری جغرافیائی حدود کم ہوتا گیا ہے۔ پاکستان اپنی نوآبادیاتی دور میں ہماری زمین کا بڑا حصہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ اور ایک بڑاحصہ ایران کے حوالے کرچکا ہے تاکہ جغرافیائی رود و بدل سے آپ کو مزید کمزور کرسکے۔
انہوں نے کہا موجودہ جد وجہد میں سیاسی و جمہوری محاذ کے علاوہ ہماری مسلح محاذ بھی بخوبی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ بہت سے عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر مسلح جدوجہد کی حمایت کرنے سے ہماری پرامن جدوجہد کا امیج یا تاثر خراب ہوتا ہے۔ لیکن ہمیںیہ سوچنا چاہئے کہ ہماری تاریخی حقیقت یا حیثیت کیا ہے؟ ہماری تاریخی حیثیت یا حقیقت یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ مقبوضہ سرزمین ہیں اور تشدد کا آغاز دشمن نے شروع کیا ہے۔ آپ کی جدوجہد جس محاذ پر ہو، برحق ہے کیونکہ اپنی سرزمین پر آپ کا جنگ مزاحمتیاور اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے ہے۔ اب اس جنگ کوقبول نہ کرنا بہت بڑی کمزور دلیل کی نشاندہی کرتا ہے۔
اصغرعلی بلوچ نے کہا ہے جب تک مقبوضہ قوم خاموش ہے تو دشمن اپنی فوج کو استعمال میں نہیں لاتا ہے۔ وہ جسمانی تشدد نہیں کرتا ہے، بلکہ اس دور میں اس کا ثقافتی اور نفسیاتی وار جاری رہتا ہے۔ جب مقبوضہ قوم آواز اٹھاتا ہے، وہ انکارکرنا شروع کرتاہے تو دشمن کی ظاہری تشدد شروع ہوجاتا ہے۔ اوریہی آپ کی کامیابی کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے کہ دشمن کا چہرہ عیاں ہوتا ہے۔ اس کی بربریت دنیا کی نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ دنیا آپ کی وجود، قومی مسئلہ اور نسل کشی کے مختلف النوع شکلوں سے واقفہوجاتا ہے۔ بلوچ نے پاکستان کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے عیاں کرنے میں کامیاب ہوچکاہے اب دنیا میں بتدریج یہ جانکاری عام ہورہاہے کہ پاکستان ایک قبضہ گیر قوت ہے اور وہ بندوق کے زور پر بلوچستان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتاہے۔