بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) نے جرمنی کے شہر ہنوور میں پاکستان کی جاری فوجی کارروائیوں، ڈرون حملوں اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ انھوں نے ان متاثرین کے لیے انصاف کا اور پاکستان کی فوجی جارحیت کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا۔
مقررین نے کہا کہ پنجابی فوج نے مقبوضہ بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل زھری میں فضائی اور زمینی حملے کیے جن میں عورتیں اور بچے بھی ہلاک ہوئے، جب کہ گھروں اور دیہات کو تباہ کر دیا گیا۔ ان کے مطابق زھری ایک ماہ سے زائد عرصے سے مسلسل بمباری کی زد میں ہے، جہاں رابطے منقطع ہیں، کرفیو نافذ ہے اور انسانی امداد تک رسائی محدود ہے۔ مظاہرین نے یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ علاقے میں حقائق جاننے کے لیے ایک مشن بھیجے۔
بی این ایم کے جرمنی میں رہنماؤں — شار حسن بلوچ (صدر جرمنی)، صفیہ بلوچ (نائب صدر)، شلی بلوچ (جوائنٹ سیکریٹری)، جبار بلوچ، سمی بلوچ، لقمان بلوچ، حماد بلوچ، سارا بلوچ، مجیب عبداللہ بلوچ، اکبر سبز، سلام بلوچ اور صفیہ گوھر — نے مظاہرین سے خطاب کیا۔ مقررین نے پاکستان کی فوجی کارروائیوں، جبری گمشدگیوں اور ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں بلوچ عوام کے خلاف اجتماعی سزا قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ زھری کو ’’ قتل گاہ ‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے فوری مداخلت کی اپیل کی۔ مقررین نے زور دیا کہ بلوچ جدوجہدانصاف، وقار اور حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے ہے۔
کئی مقررین نے حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں اور ہیلی کاپٹر شیلنگ میں زھری اور اس کے گرد و نواح کے متعدد عام شہری مارے گئے۔ ان کے مطابق یہ حملے بلوچ عوام کے خلاف پنجابی ریاست کے جبر کے اس وسیع تر سلسلے کا حصہ ہیں جو برسوں سے جاری ہے۔ مقررین نے یہ بھی کہا کہ پنجابی فوج مذہبی اور قومی نعروں کا سہارا لے کر اپنی کارروائیوں کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کر رہی ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ پاکستان کو ان مظالم کے لیے جوابدہ ٹھہرائیں ، اسلام آباد اور پنڈی پر دباؤ ڈالیں کہ وہ بلوچ عوام کے خلاف جاری نسل کشی کی مہم ختم کرے۔ مظاہرے کے اختتام پر شرکاء نے عہد کیا کہ وہ انصاف، آزادی اور انسانی وقار کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ایک مقرر نے کہا: ’’ دنیا کی خاموشی ہر روز ہمارے زخموں کو گہرا کر رہی ہے، اب یہ خاموشی ٹوٹنی چاہیے۔‘‘