بلوچ شہداء نے اپنی جانیں اقتدار کے لیے نہیں بلکہ آزادی کے لیے قربان کیں ۔ صفیہ بلوچ

بی این ایم جرمنی

بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم ) جرمنی چیپٹر کی نائب صدر صفیہ بلوچ نے 13 نومبر، بلوچ شہداء کے دن کے موقع پر برلن، جرمنی میں منعقدہ بی ای ین ایم کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے شہداء کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا لہو آج بھی ہماری رگوں میں رواں ہے۔

صفیہ بلوچ نے کہا کہ وہ خاموشی کے ساتھ نہیں بلکہ پوری قوت اور طاقت کے ساتھ جمع ہوئے ہیں تاکہ ان ہستیوں کو یاد کیا جائے جنھوں نے اپنی جانیں اقتدار یا شہرت کے لیے نہیں، بلکہ قوم کی آزادی اور سرزمین کے وقار کے لیے نچھاور کیں۔

بی این ایم جرمنی کی نائب صدر نے اس دن کو اپنے دل کے بہت قریب قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انھیں اس جرات، درد اور قربانی کی یاد دلاتا ہے جو بلوچ قوم کی پہچان ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ 13 نومبر کے دن وہ صرف یاد نہیں کرتے بلکہ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ’’ ہم اپنے وعدے کی تجدید کرتے ہیں کہ آپ کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ ایک آزاد، منصفانہ اور باوقار بلوچستان کا آپ کا خواب آج بھی زندہ ہے — ہمارے ذریعے۔‘‘ انھوں نے ایک مشہور قول کا حوالہ بھی دیا: ’’ آپ خواب دیکھنے والے کو مار سکتے ہیں، لیکن آپ خواب کو کبھی نہیں مار سکتے۔‘‘

صفیہ بلوچ نے بلوچ جدوجہد کے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ لاتعداد مرد و خواتین نے ناانصافی کے خلاف کھڑے ہو کر خاموشی کے بجائے موت کو اور ہتھیار ڈالنے کے بجائے قربانی کو چنا۔ ان کے بقول بلوچ شہداء اساتذہ، شاعر، طالب علم اور کسان جیسے عام لوگ تھے جنھوں نے غیر معمولی کام کیے۔

انھوں نے شہداء کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے جیلوں، تشدد اور گولیوں کا سامنا کیا، مگر ایک آزاد اور پرامن بلوچستان کے اپنے خواب سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔ ’’ وہ بے آوازوں کی آواز بنے، تاریکی میں روشنی بنے، ایک ایسی قوم کی دھڑکن بنے جس نے مرنے سے انکار کر دیا۔‘‘

انھوں نے حاضرین کو یاد دلایا کہ شہداء کا لہو آج بھی ہماری رگوں میں رواں ہے اور ان کی جرات ہماری سرزمین کے ہر کونے میں گونجتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا فرض ہے کہ صرف انھیں یاد ہی نہ کریں بلکہ ان کے شروع کیے ہوئے کام کو بھی جاری رکھیں۔

تقریر کے اختتام پر، صفیہ بلوچ نے شہیدوں کے نام ’’ وہ ہمارے ذریعے زندہ ہیں‘‘ کے عنوان سے ایک نظم پیش کی، جو ان لوگوں کو وقف تھی جنھوں نے وطن کی خاطر گھر چھوڑا اور وقار کی زندگی کے لیے موت کو گلے لگایا۔

Share This Article