بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے 54ویں باقاعدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی افواج کی طرف سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا۔
ترقی کے حق سمیت تمام انسانی حقوق، شہری، سیاسی، اقتصادی، سماجی، اور ثقافتی حقوق کے فروغ اور تحفظ پر عام بحث کے دوران، ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بلوچ عوام کو درپیش سنگین صورتحال پر زور دیا۔ انھوں نے پاکستانی افواج کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی کا ذکر کیا، جس میں جبری گمشدگیاں، قتل، تشدد، دہشت زدہ کرنا، اور گھروں کی تباہی شامل ہیں، جو بلوچ عوام روزانہ سہتی ہے۔
بی این ایم کے شعبہ انسانی حقوق پانک کا حوالہ دیتے ہوئے، ڈاکٹرنسیم بلوچ نے بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی صورتحال پر توجہ دلانے کے لیے اعدادوشمار بتائے، انھوں نے کہا صرف اگست میں بلوچستان میں 64 جبری گمشدگیوں اور تین قتل کے واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ بعد ازاں انھوں نے چند مخصوص کیسز کو اجاگر کیا جو بلوچ قوم کو درپیش ہولناک صورتحال کی مثال ہیں۔
ایسا ہی ایک معاملہ رواں سال 15 مئی کو ایک خاتون ٹیچر نجمہ کی فوج کے ہاتھوں جنسی ہراساں کیے جانے کے نتیجے میں خودکشی کا تھا۔ اپریل 2021 میں پیش آنے والے ایک اور واقعے میں، بلوچستان کے علاقے ہوشاپ میں مراد امیر نامی 13 سالہ طالب علم کو فوج نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ مزید برآں، آواران کے رہائشی نور جان کو 20 مئی 2021 کو پاکستانی فورسز کی جانب سے اپنی بیٹی کو فوجی کیمپ میں لانے کے لیے دباؤ ڈال کر اپنی جان لینے پر مجبور کیا گیا۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے رواں سال 28 اگست کو پیش آنے والے ایک حالیہ معاملے کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی جس میں نور خاتون نامی ایک خاتون کو ان کء دو بچوں سمیت بلوچستان کے مرکزی شہر شال میں چھ دن تک ماورائے عدالت گرفتار، لاپتہ، اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اپنی تقریر کے اختتام پر انھوں نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی مسلسل اور سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے فوری توجہ اور کارروائی کی اشد ضرورت پر زور دیا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم کی تقریر کا متن:
میں پاکستانی افواج کی وجہ سے بلوچستان کی مخدوش صورتحال کی طرف اسمبلی کی توجہ چاہتا ہوں۔ بلوچ عوام کو وحشیانہ نسل کشی کا سامنا ہے، جس میں جبری گمشدگی، قتل، تشدد، دہشت زدہ کرنا اور گھروں کو تباہ کرنا شامل ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم پانک نے صرف اگست میں اپنی رپورٹ میں بلوچستان میں 64 جبری گمشدگیوں اور تین قتل کا بتایا ہے۔ پاکستانی فورسز نے بنگلہ دیش کی طرح بلوچستان میں بھی جنسی زیادتیاں کی ہے۔
ایک خاتون ٹیچر نجمہ نے اس سال 15 مئی کو فوج کی طرف سے جنسی ہراسانی کے باعث خودکشی کی۔
اپریل 2021 میں، فوج نے بلوچستان کے علاقے ہوشاپ میں 13 سالہ طالب علم مراد امیر کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔
آواران کے رہائشی نور جان نے 20 مئی 2021 کو پاکستانی فورسز کے دباؤ پر اپنی جان لے لی ، پاکستانی فوج نے ان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو فوجی کیمپ میں لے لائے۔
رواں سال 28 اگست کو شال میں نور خاتون نامی خاتون کو گرفتار کر کے لاپتہ کیا گیا اور چھ دن تک انھیں اپنے دو بچوں سمیت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ مظالم بدستور جاری ہیں ، اس پر فوری توجہ اور کارروائی کی ضرورت ہے۔
شکریہ