افغانستان سمیت خطے میں امن و سلامتی و پائیدار ترقی کی راہیں آزاد بلوچستان سے نکلتی ہیں۔ چیئرمین خلیل بلوچ
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ کابل میں وزارت سرحدات و قبائلی امور کے زیر اہتمام ”یوم یکجہتی پشتون اور بلوچ“ کے مناسبت سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں وزارت برائے سرحدات و قبائلی امور سے جناب محمد یعقوب احمد زئی، نائب ڈاکٹر محمد آصف قاضی زادہ، وزارت سرحدات و قبائلی امور کے عہدیداران، علمی و ثقافتی شخصیات، سائنس اکیڈمی کے ممبران، قبائلی رہنماؤں، قومی کونسلوں کے ممبران، سول سوسائٹی کے ممبران، خواتین، نوجوانوں، اساتذہ اور میڈیا کے لوگوں کے علاوہ اور بلوچستان اور پختونخوا سے لوگوں نے شرکت کی۔ تقریب میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ کا پیغام سدرہ اقبال بلوچ نے پڑھ کر سنائی۔
تقریب کے آغاز میں وزارت سرحدات اور قبائلی امور کے نائب وزیر جناب محمد یعقوب احمد زئی نے پہلے تمام شرکا کا خیرمقدم کیا اور پھر اپنے افتتاحی خطاب میں اس دن کے تاریخی پس منظر پر تبادلہ خیال کیا۔دیگر مقررین میں ڈاکٹر محمد آصف قاضی زادہ، عبد الولی خان یونیورسٹی پشاور کے ڈاکٹر سہیل خان، جنرل کونسل آف ٹرائب کے چیئرمین زرجان شنواری، نظام الدین فطرت بلوچ، نجیب اللہ منالی، محترمہ سدرہ اقبال بلوچ، عبد الغفار رضائی، وحید جان مخلص، ترکمن کونسل کے چیئرمین حقجو نے اپنے خطابات اور مقالوں میں بلوچ کے تاریخی پس منظر، ثقافتی اور تاریخی تعلقات، جدوجہد، قربانیوں، اور آزادی کے لئے مشترکہ کاوشوں پر بات کی۔مقررین نے بلوچ و پشتون قوم کو درپیش مسائل کے حل اور کامیابی، خوشحالی اور ترقی کے حصول کے لئے اتحاد کو واحد راستہ قرار دیا۔ مشہور شاعر محمد ہاشم گھمشریک، شفیع اللہ بابرزئی اور زلمائی منک نے اپنے اشعار سنائے جن میں قومی اتحاد، وطن اور عوام سے محبت کے پیغامات تھے۔ بلوچ شوریٰ کے صدر جناب نظام الدین فطرت بلوچ کو ڈائریکٹر برائے انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز عبدالوحید خاوری نے ان کی عمدہ خدمات کے لئے تعریفی خط پیش کیا۔
تقریب سے سدرہ اقبال بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا بلوچ قومی آزادی کے سیاسی و جمہوری محاز میں برسرپیکار پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین جناب خلیل بلوچ کی جانب سے آپ سب کو سلام کہتی ہوں اور اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتی ہوں کہ بلوچ افغان دوستی کے دن کی مناسبت سے عظیم افغان سرزمین کے غیور فرزندوں سے مخاطب ہوں۔
تقریب میں سدرہ اقبال بلوچ نے چیئرمین خلیل بلوچ کا حسب ذیل پیغام پڑھ کر سنائی۔
افغان اور بلوچ زمانہ قدیم سے برادرانہ اور دوستانہ رشتے میں بندھے ہیں۔ ہم نے خوشی و غم میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ جب افغان قوم پر مشکل وقت آیا تو انہوں نے بلوچ سرزمین کا رخ کیا اور بلوچ قوم نے ان کے لئے باہیں اور سینے کھول دیئے۔ جب بلوچ قوم پر مشکل وقت آیا تو ہمارا دوسرا گھر افغان سرزمین بنا۔ بلوچ افغان قوم کی اس زندہ دلی، سخاوت، مروت کو ایک احسان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گا۔
آج بلوچ مشکل وقت سے دوچار ہے۔ بلوچ کا گھر جل رہاہے۔ بلوچ کے مال و متاع لوٹے جارہے ہیں۔ بلوچ ننگ و ناموس پائمال ہو رہا ہے تو عظیم افغان بھی محفوظ نہیں۔ چالیس سالہ جنگ نے ایشیا کے اس عظیم ملک کو ناقابل بیان اور ناقابل تشریح نقصان سے دوچار کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس عظیم قوم کو مزید نقصان سے دوچار نہیں ہونی چاہئے۔ بلکہ اسے تعمیر و ترقی و خوشحالی کی جانب بڑھنا چاہئے۔ افغان قوم کو خوش و خوش حال دیکھنا بلوچ قوم کی دلی خواہش و ارمان ہے۔
دوستو! دوست بدلے جاسکتے ہیں، رشتوں میں شکست و ریخت آتے رہتے ہیں، ملکوں و خطوں کے ترجیحات بدلے جاسکتے ہیں لیکن جغرافیہ بدلے نہیں جاسکتے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم نہ صرف جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہیں بلکہ ہماری برادرانہ رشتے میں کوئی ایسی موڑ نہیں آئی ہے کہ ہماری دوستی میں رخنہ آئے۔ ہماری دوستی ناقابل تنسیخ و ترمیم ہے۔ ہماری دوستی تاریخ کے تمام اتار چڑھاؤ میں کھرا اترا ہے۔ ہم وقت کے تمام امتحانوں میں کامیاب رہے ہیں۔
دوستو!
بلوچ وافغان دوستی صرف لفاظی نہیں بلکہ ہمارے دوستی کے شواہد تاریخ کے صفحات پر درج ہیں۔ 1758 میں، افغانستان کے پہلے افغان بادشاہ احمد شاہ بابا اور بلوچستان کے عظیم حکمران نصیر خان کے مابین بلوچ افغان دوستی کا ایک باضابطہ معاہدہ ہوا۔ نصیر خان عظیم احمد شاہ بابا کے سب سے معتبر اور مددگار دوست بن گئے۔ اور فوجی مہمات میں ان کی مدد کی۔ احمد شاہ بابا کی پانی پت اور مشہد کی تاریخی لڑائیوں کو مورخین نصیر خان کی سربراہی میں بلوچ فوج کا عظیم کردار سمجھتے ہیں۔ نصیر خان کے بعد، ان کے جانشینوں اور بلوچ عوام نے بلوچ افغان دوستی کااحترام کیا۔
محترم سامعین!
ہماری ناقابل شکست دوستی ہمارے قومی مفاد میں ہے لیکن اس سے ہمارے ازلی دشمن پاکستان کو تکلیف پہنچ رہا ہے۔ دو قومو ں کی دوستی سے کسی کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے لیکن پاکستان بلوچ اور افغان دونوں قوموں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ پاکستان کے ”اسٹریٹیجک ڈپتھ“ کا مرکز و محور افغانستان کی عدم استحکام ہے۔ افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے پاکستان نے کیا کیا ہے اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔ بلوچ نیشنل موومنٹ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی افغانستان میں مداخلت اور دہشت گردی کی سرپرستی نہ ہوتی تو آج افغانستان ایک ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ آج افغانستان صنعت و حرفت، تجارت ومعیشت اور سیر و سیاحت کے لئے ایشیا کا مرکز ہوتا۔ لیکن پاکستان کی مداخلت، پاکستان کی بدمعاشی نے افغانستان کے سماجی فیبرک میں دہشت گردی کا عنصر شامل کرکے اسے تباہ کی اور یہ کوشش آج بھی جاری ہے۔
دوستو!
اسی طرح بلوچ قوم بھی پاکستان کی درندگی و حیوانیت کا مقابلہ کر رہاہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ گزشتہ دنوں سے ایک تصویر گردش کر رہی ہے کہ والدین اپنے جوان بیٹے کی لاش پر بیٹھے ماتم کناں ہیں۔ یہ حیات بلوچ ہے۔ یونیورسٹی کا طالب علم۔۔۔ پاکستان فوج اس کی ماں کے دوپٹے سے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے والدین کے سامنے گولیوں سے چھلنی کر دیتا ہے۔ حیات صرف ایک مثال ہے۔ ہمارے جوان بھائی روزانہ اسی طرح قتل ہورہے ہیں۔ ماں بہنوں کے دوپٹوں کے لئے بلوچ اور افغان سروں کی قربانیاں دیتے ہیں، سات خون معاف کرتے ہیں، لیکن پاکستان کے لئے یہ کوئی معنی و اہمیت نہیں رکھتے۔
پاکستان کون ہے؟ بلوچستان بلوچ کا وطن ہے۔ افغانستان افغان کا وطن ہے۔ سندھ سندھی کا وطن ہے۔ لیکن پاکستان کس کا وطن ہے۔ نہ کوئی تاریخ ہے نہ کوئی تہذیب ہے۔ انگریز سامراج نے اپنے مستقبل کے مفادات کے لئے پاکستان تشکیل دی۔ یہ ریاست ایک درندہ فوج کے حوالے ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے تمام فیصلے فوج کرتاہے۔
بلوچ خطے کی قدیم ترین قوموں میں سے ایک اور ایک قدیم ترین تہذیب کا مالک ہے۔ بلوچ بہادری، وعدے کی پاسداری، جارحیت کے خلاف مزاحمت اور مہمان نوازی کے لئے جانا جاتا ہے۔ 1666 سے بلوچ بطور ریاست قائم چلے آرہے ہیں۔ 13نومبر 1839 کو انگریز نے ہم پر قبضہ کی۔ انگریز ایک توسیع پسند اور جارح قوت تھا لیکن قبضے کی بنیادی سبب افغانستان پر حملے کے لئے انگریزی سپاہ پر بلوچوں کے حملے اور افغانستان پر قبضہ کے لئے بلوچ کا مدد فراہم کرنے سے انکار تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1838 میں برطانوی ہند کی نوآبادیاتی فوج، جب اپنی پہلی اینگلو افغان جنگ کے لئے آگے بڑھی، تو انہیں کچھی اور تاریخی بولان پاس کے میدانی علاقوں میں بلوچ عوام نے انگریزی سپاہ کو بے پناہ نقصان پہنچائی۔ یہ انگریز کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ جب برطانوی فوج افغانستان سے واپس آئی تو انہوں نے 13 نومبر 1839 کوبلوچستان کے دارالحکومت قلات پر حملہ کیا، اور ہمارے خان قلات بلوچ حکمران میر محراب خان اور ساتھیوں نے مزاحمت کی راہ اختیار کی اور وطن کی حفاظت میں شہید ہوئے۔ اس کے بعد انگریز نے بلوچ اور افغانستان کو یکساں طور پر غیر مساوی، بلاجواز یکطرفہ نام نہاد معاہدے مسلط کئے اور غیر فطری سامراجی ڈیورنڈ باؤنڈری لائن، گولڈسمڈ کی باؤنڈری لائن اور میک میکہون با ڈر لائن کے ذریعے دونوں اقوام کو تقسیم کیا۔
ہم 11اگست 1947کو انگریز سے آزاد ہوئے لیکن سات مہینے کے مختصر دورانیہ کے بعدپاکستان نے ہماری آزادی سلب کی۔اسی دن سے بلوچ اپنی آزادی کی سیاسی و جمہوری جنگ لڑرہا ہے۔ ہم اس بات پر فخرکرتے ہیں کہ ہمارے مزاحمتی لیڈر آغاعبدالکریم خان کو آپ نے پناہ دی۔ اس کے بعد سے آپ نے ہماری میزبانی کی ہے۔ ہماری جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں ہم نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ہماری قربانیوں کی سفر قومی آزادی تک جاری رہے گا۔
محترمین!
ہماری جنگ آزادی بین الاقوامی قوانین کے مطابق جاری ہے۔ بہت سے کنونشز ہماری جدوجہد کی توثیق کرتے ہیں جنہیں اقوام متحدہ کے ممبر ممالک تسلیم کرچکے ہیں۔ میں صرف ایک قانون کا حوالہ دوں گی۔ 3 دسمبر 1992 کو اقوام متحدہ میں قرار داد نمبر 37/43 پاس کی گئی جس کے مطابق کسی بھی عسکری قبضہ، نوآبادیاتی طاقت، نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کرسکتا ہے اور اقوام متحدہ اپنے ممبر ممالک کو پابندکرتا ہے کہ وہ ریاستی جبر، عسکری فورسز کے خلاف جمہوری، سیاسی و مسلح جدوجہد کی حمایت و اعانت کریں۔ اسی قرارداد کے تناظر میں فلسطین، انگولا، ساؤتھ افریقہ، موزنبیق کے تحریکوں کو مدد فراہم کیا گیا ہے۔
معزز حضرات!
ہماری تاریخی دوستی ہم سے تقاضا کرتاہے کہ آگے بڑھیں، ایک دوسرے کے دست بازو بنیں۔ آپ ریاست ہیں اور ہم ریاست سے محروم مقبوضہ قوم۔ ہمیں جدوجہد میں آپ کے سیاسی واخلاقی امداد و حمایت کی ضرورت ہے۔ ہمیں نسل کشی کو روکنے کے لئے آپ کی آواز کی ضرورت ہے۔ آج ہمارے ہزاروں نوجوان قتل ہوچکے ہیں۔ ہزاروں زندانوں میں قید ہیں۔ کوئی روز ایسی نہیں گزرتی کہ بلوچ سرزمین پر آتش و آہن کی برسات نہ ہو۔
دوستو!
بلوچ نیشنل موومنٹ سمجھتا ہے کہ افغانستان اور بلوچستان کو موجودہ تباہ کن صوت حال سے نکالنے کا واحد راستہ آزاد بلوچستان سے نکلتا ہے۔ ہماری ایک طویل سرحد ہے۔ دوستانہ تعلقات کی تاریخ، ثقافتی اقدار، معاشی مفادات آپس میں پیوست ہیں۔ انہیں غیر فطری ریاست پاکستان جدا کرچکا ہے۔ ہماری آزادی پاکستان کی کمر توڑ دے گا۔ ہماری آزادی سے افغانستان سمیت پورے خطے میں انقلاب برپا ہوگا۔ آئیے ہماری آواز بنیئے اور دوستی کا فرض پورا کیجئے۔