بی این ایم مرکزی کمیٹی اجلاس: مختلف ایجنڈا زیربحث آئے اور اہم فیصلے کئے گئے

InfoSecBNM
InfoSecBNM
44 Min Read

بلوچ نیشنل موومنٹ سینٹرل کمیٹی کا تیسرا اجلاس چیئرمین خلیل بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس شہدا کی یاد سے شروع ہوا۔ مرکزی

کمیٹی اجلاس میں بلوچستان اور خطے کی سیاسی صورت حال، پارٹی امور، سیکریٹری رپورٹ، فنانس رپورٹ، بلوچ مہاجرین، لٹریری رپورٹ، ڈائسپورہ پر سیر حاصل بحث کیا گیا اورکابینہ کے گزشتہ اجلاس کے فیصلے اور چیئرمین کی طرف سے مرکزی کمیٹی ممبران کی نامزدگی توثیق کے لئے پیش کرنے کے علاوہ مختلف ایجنڈے زیربحث آئے اور مختلف فیصلے کئے گئے۔ سینٹرل کمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 2021 کو پارٹی کی قومی کونسل سیشن کا انعقاد کیا جائے گا۔

مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ پارٹی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں تاخیر پر میں بحیثیت چیئرمین مرکزی کمیٹی اور پارٹی کارکنوں سے معذرت خواہ ہوں۔سیکورٹی مسائل سمیت مختلف مشکلات ہماری میٹنگ کی راہ میں رکاوٹ رہی ہیں۔ سیکورٹی مسائل میں اضافے کی وجہ سے تین بار میٹنگ کی تیاری کے باوجود ہم اجلاس منعقد کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ امید کرتا ہوں کہ آج کے مرکزی کمیٹی میں ساتھی بہتر پالیسی سازی کریں گے۔ ریاستی جبر، ساتھیوں کی شہادت سے آمدورفت میں مشکلات سے ہمارے کام کی رفتار متاثر ضرور ہوا ہے لیکن اس کے باوجود پارٹی امور کی انجام دہی میں کوئی بڑی کمی واقع نہیں ہوئی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ پارٹی جمود کا شکار ہوچکا ہے۔ حالات کی جبر اوردشمن کی تباہ کاریوں کو مدنظر رکھ کر ہم نے یہ کوشش ضرور کی ہے کہ ساتھیوں کے نقصانات کم سے کم کرکے پارٹی امور انجام دیں اورموبلائزیشن کے عمل کو دیگر ممکنہ ذرائع سے انجام دیں اور ہماری رابطہ کاری قائم رہے۔ ہماری لئے نسبتا َمحفوظ تر محاذ ڈائسپورہ تھا جہاں آسانیاں زیادہ تھیں۔ بعض ممالک میں سیاسی آزادی نہیں اور بعض ممالک میں سیاسی پناہ کے لئے پیچیدگیوں اور ملازمتوں کے باجودڈائسپورہ نے بہترین رزلٹ دی ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہماری سرزمین کی محل وقوع ایسی ہے کہ ہمارے ارد گرد جنگیں چل رہی ہیں۔ ہم بہرصورت متاثر ہوسکتے ہیں لیکن یہ سب کی ذہنوں میں رہے کہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے ہماری کوشش بلکہ پالیسی رہی ہے کہ ہماری تحریک اعلانیہ جنگوں یا پراکسی وار کے اثرات سے محفوظ رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن اس باب میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں مختلف متحارب دھڑے برسرپیکار ہوں، عالمی قوتوں کے اپنے اپنے مفادات کے لئے رسہ کشی جاری ہو، ایسے عالم میں سیاسی ورکروں کو اپنی طرف سے رائے سازی سے بہرصورت گریز کرنا چاہئے اور ازخود کسی بیانئے کا حصہ بننے یا کسی تصوراتی بیانئے سے متاثر ہونے کے بجائے اپنی قیادت پر اعتماد کرنا چاہئے، کیونکہ لیڈر شپ کی رائے، فیصلے اور پالیسی سے بالا تر ہوکرانفرادی سطح پر رائے سازی یا تصوراتی بیانئے کا حصہ بننے سے نہ صرف کارکن نقصان سے دوچار ہوجاتے ہیں بلکہ مجموعی طورپر اس کے اثرات پارٹی اور جدوجہد کے لئے بھی انتہائی ضرررساں ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کی قیادت نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ہم تصوراتی بیانئے کے بجائے زمینی حقائق کو مدنظررکھ پالیسی ترتیب دیں۔ مغربی بلوچستان کے بارے میں پارٹی پر ایک سطحی تنقید چل رہا ہے۔ اس پر میں واضح کرتا ہوں کہ اگر آپ عملی طورپرکچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو تصوراتی بیانئے سے قوم کا کسی طور سے بھلا نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہی ہوگا۔ مشرقی بلوچستان ہمارا بنیادی اورمرکزی محاذ ہے جہاں ہماری تحریک کا وجود اور انحصار ہے۔ لیکن اس محاذ سے آپ کسی دوسری علاقے جہاں آپ کی موجودگی نہیں ہے، میں تحریک نہیں چلا سکتے ہیں۔ یہ آپ کی حکمت عملی پر انحصار کرتا ہے آپ آگے کس حکمت عملی کے تحت کام کریں گے۔ ذہنوں میں منفی تاثر ضرور ابھرتے ہیں یا انہیں ابھارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مشرقی اورمغربی بلوچستان کے حالات، ماحول اور زمینی حقائق میں زمین آسمان کا فرق موجود ہے۔ بعض اوقات ذیلی سطح پر کارکن اس تصوراتی بیانئے کا شکار ہوجاتے ہیں اور خود کو اس تصوراتی بیانیئے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کرچکے ہیں جس سے نقصان ضرور ہوا ہے لیکن فائدہ ہمیں نظر نہیں آتا ہے۔ امریکہ ایران تضاد موجود ہے، افغانستان اور پاکستان کے درمیان تضادات موجود ہیں، بعض گروپ پاکستان کے ریاستی سرپرستی میں تربیت اور وسائل سے افغانستان کے خلاف صف آرا ہیں۔ جو گروپ پاکستانی وسائل، سرپرستی اور تربیت سے کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف لڑرہے ہوں، ان سے ہماری سیاسی، فکری اور نظریاتی تضاد موجود ہے۔ خواہ وہ مغربی بلوچستان میں ہوں یا مشرقی، وہ ہمیں نقصان دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان سے ہم متاثر ہورہے ہیں۔ اس بارے میں پارٹی بارہا اپنی پالیسی واضح کرچکا ہے۔ ہمارے اتحادی بھی اس بارے میں اپنی اپنی پالیسیاں واضح کرچکے ہیں۔ لیکن ایک بات میں واضح کرتا ہوں کہ بعض معاملات میں پارٹی پالیسی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہر ورکر کسی بھی تضاد کا انفرادی سطح پر حصہ بننے کی کوشش کرے۔ یہاں کچھ قوت چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں استعمال کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں اور ٹکڑی یا انفرادی سطح پر کوئی ایسی حرکت ہوتی ہے تو ہمارے کارکن متحارب قوتوں کے لئے آسان ہدف بن جاتے ہیں اوریہی کام ہوا بھی ہے۔

انہوں نے کہا مجموعی طورپر بلوچ جدوجہد میں ایک بہترین کوارڈینیشن وجود میں آچکا ہے اور جہاں ایک چپقلش اور رنجش کا ماحول تھا، وہاں آج ایک خوبصورت رشتہ وجود میں آچکا ہے۔ اس میں پارٹی اور پارٹی کے سیکریٹری جنرل کی کاوشیں نمایاں ہیں۔ ان تمام کارناموں کو ہم اپنی پارٹی کارکردگی سے باہرقرار نہیں دے سکتے۔ ایک انقلابی پارٹی کے وارث کی حیثیت سے ہم اپنے ساتھیوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم انقلابی رویے، انقلابی عمل سے انقلابی ضروریات پورا کریں تاکہ ہم ایک کامل انقلابی عمل کو آگے بڑھا سکیں اور خود کو انقلابی روپ میں ڈھال سکیں۔ جب حالات میں تغیر و تبدل آتا ہے تو ہم پارٹی، پارٹی اتحادیوں کے صلاح و مشورے سے انقلابی فیصلے کرنے کے قابل ہوجائیں۔ کچھ عرصے سے دوستوں کے ذہنوں میں کچھ سوال اور خدشات جنم لے چکے ہیں کہ تنظیم کاری رک چکا ہے حالانکہ اس دوران میں نے کئی خود آن لائن میٹنگوں میں حصہ لیا ہے اور مشکل حالات میں رابطہ کاری کا عمل جاری رکھا ہے۔ پارٹی کے لئے مشکل مرحلے ضرور آتے ہیں لیکن پارٹی نے ان مشکلات کی سدباب کے لئے کوشش ضرور کی ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا قیادت اور کارکنوں کی قربانی اور شبانہ روز محنت بلوچ نیشنل موومنٹ کو قوم یا عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے والے فورمزکی نظروں میں دیگر ہیرارکی پارٹیوں یا دعویٰ داروں سے ممتاز بناتا ہے تو ہماری ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ معاملات پارٹی کے کسی شعبے یا پالیسیوں سے متعلق ہوں، جب کوئی بھی ادارے سے باہر رائے سازی کی کوشش کرتا ہے تو میں اسے پارٹی کے خلاف زہر افشانی اور منفی عمل سمجھتا ہوں۔ بعض اوقات ہمارے رویوں میں غیر پارلیمانی اور غیر سیاسی تلخی نظر آتا ہو تو ہماری پارٹی کے اقدار یا ادارے کے پلیٹ فارم پرکام کرنے کی پالیسی کونقصان پہنچتا ہے۔ یا باربار ساتھیوں کی جانب سے ایک نئی مباحث سامنا آرہا ہے کہ مغربی بلوچستان کے بارے میں پارٹی پالیسی واضح نہیں ہے۔ دراصل یہ ہماری سیاسی مخالفین کی جانب سے ایک پروپیگنڈہ تھا جنہوں نے اس مدعے کی اتنی تشہیر کی کہ اس سے ہمارے ساتھیوں میں سے چند ایک نے یہی تاثر لیا ہے کہ شاید پارٹی نے اپنے بنیادی پروگرام سے انحراف کیا ہے۔ اس پر میں واضح کرتا ہوں کہ ہم سب کے لئے پارٹی منشور ہر چیز پر مقدم ہے۔ ماسوائے قومی کونسل سیشن کے کوئی اور فورم پارٹی کے بنیادی اساس میں تبدیلی کا مجاذ نہیں۔ شاید بعض اوقات رابطہ کاری میں مشکلات کی وجہ سے ہمارے ساتھیوں یا ذیلی سطحوں پرایسے کسی خدشے نے جنم لیا ہو۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اسے رفع کریں۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ جب بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کے موجودہ مرحلے کو ہم دیکھتے ہیں تو ہماری لیڈرشپ نے بلوچ سیاست کو جونئی شکل اور سمت دی ہے، سیاست میں جو بھی پیش رفت اورنشیب و فراز آئے ہیں وہ سیاسی عمل کا حصہ ہیں۔ اس کے ساتھ تغیر و تبدل وقت کا جزولاینفک ہوتے ہیں جو آپ کی حکمت عملیوں میں بھی بروقت نظرثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ آج نہ صرف ہماری سرزمین کے حالات میں تبدیلی واقع ہوئی ہے بلکہ پورا خطہ تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اس لئے ہمارا لائن آف ایکشن تو وہی ہے لیکن حکمت عملیوں میں تبدیلی ہوئی ہے۔ اسے بعض دوست جمود سے تعبیر کرتے ہیں۔ میرے خیال میں سیاسی ارتقاء اور تحریک ایک زندہ شئے ہے۔ جب تک وہ مجموعی طورپر جمود کے بجائے روانی اورمتحرک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا سیاسی ارتقاء میں جمود نہیں حرکت ہے۔ ہم بلوچ قومی تحریک کے کسی بھی پہلو کو بلوچ سیاسی ارتقائی عمل سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ہیں یا اسے ہم الگ تسلیم نہیں کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ حالات کے جبر کو ہم کام میں سست رفتاری کا جواز نہیں بنا سکتے لیکن وقت و حالات کے ساتھ حکمت عملیوں میں تبدیلی لازمی امر ہے۔ ایسے وقت میں جب ہم کھلے عام کام نہیں کرسکتے ہیں تو متبادل کے طورپر ہماری پالیسی اور لٹریچر پہنچ جاتے ہیں۔ مخصوص رابطے کے ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وسائل کی کمیابی بھی آڑے آتا ہے۔ جب ہم اپنے نقصانات کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس میں رابطے کے ذرائع کی غیر ضروری یا غیر محتاط استعمال سرفہرست نظر آتا ہے۔ اس سے ہم نے نقصان اٹھایا ہے۔ اس کے بعد ہم نے کوشش کی ہے کہ رابطوں کے طریقہ کار میں تبدیلی لائیں اورمحفوظ ذرائع استعمال کریں۔ اس کے لئے ناکافی وسائل کی وجہ سے ہمیں زونل سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ہمارے رابطہ کاری میں کمی سہی تسلسل نہیں ٹوٹی ہے۔ حقائق کو مدنظر رکھ کر ہم سرزمین پر اپنی بعض سرگرمیاں مخفی رکھے ہوئے ہیں اور ساتھیوں کو سختی سے پابند کی ہے کہ انہیں افشا کرنے سے پرہیز کریں تاکہ ساتھیوں کی سیکورٹی ممکن ہو۔ کیونکہ ایک مختصر مدت میں ہم نے بہت سے دوست کھوئے ہیں۔ ہمارے پا س کیڈر کی کوئی کمی نہیں لیکن ہم مزید نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہماری حفظ ما تقدم اقدامات سے سیاسی سفر کی رفتار میں کمی کے باوجود تسلسل ہے اور ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ بہرکیف اس پر رائے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ہم اسے قطعا جمو د قرارنہیں دے سکتے ہیں۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ ہماری جدوجہد نیشنلزم کے واضح نظریے پر قومی آزادی اور قومی مفادات کے لئے ہے۔ دنیا کے طاقتوں کی منشا اور مفادات خواہ کچھ بھی ہوں، کوئی ہمیں کتنی ہی قوت سے متاثر کرنے کی کوشش کیوں نہ کرے لیکن ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہم کسی طاقت کی رضاجوئی یا کسی طاقت کے مفادات کے لئے جدوجہد نہیں کررہے ہیں کہ ہماری پالیسیوں میں استحکام کے بجائے بے جا لچک ہو۔ پارٹی قیادت، کارکنوں اور قومی جدوجہد میں شامل کارکنوں اور کیڈر کے لئے قومی مقصد ہر شئے پر مقدم ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی آزادی کی تحریک طویل المدتی اورمشکلات سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں سطحی پالیسی اور جلد نتائج کا توقع انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ بلوچ قومی کاز سے جڑے کارکنوں کو جلد نتائج ملنے جیسے سطحی سوچ سے بالاتر ہونا چاہئے۔ اگر کوئی جلد نتائج کی کوشش کرتا ہے تو سیاسی ارتقا کے قوانین اس کے نقصانات واضح کرتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں آزادی کا تصور اتنی کامل نہیں کہ ہم کسی سے یہ توقع رکھیں کہ وہ انسانی اقدار کے لئے ہماری آزادی تسلیم کرے۔ سوویت یونین اور اس کے بعد دیگر طاقتوں کے مداخلت سے ہم سبھی واقف ہیں۔ ان کے اثرو رسوخ واضح ہیں۔ آج کے طاقتوں کی دلچسپاں نمایاں ہیں۔ تاریخ اورتجربہ ہمیں یہی بتاتے ہیں نعرے خواہ کچھ بھی ہوں، طاقتوں کے لئے اپنے مفادات مقدم ہوتے ہیں۔ ہماری بحیثیت ایک ذمہ دارپارٹی کے کوشش یہی ہے کہ بلوچ قومی پالیسیاں کسی عالمی قوت کے شرائط پر نہیں بلکہ بلوچ قومی مفادات سے ہم آہنگ ہوں۔ ہمارے سیاسی عمل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بلوچ کاز کے لئے کسی بھی طاقت کے ہم آہنگ مفادات کی صورت میں بلوچ قومی شرائط کا پلہ بھاری رہے۔ ہماری محل و وقوع کی اہمیت دنیا کے لئے نہ کل کم تھی نہ آج کم ہے۔ یہ ہماری سیاسی بصیرت پرانحصارکرتا ہے کہ ہم دنیا کو اس جانب کن شرائط پر راغب کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچ نیشنل موومنٹ کے اتحادیوں کا اولین فریضہ ہے وہ سیاسی عمل سے جڑے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں میں وقت اور تحریک کے تقاضوں کے مطابق وسعت اور اضافہ پید اکریں تاکہ ہم ایک انقلابی معیار کے تحت قومی آزادی کے حصول میں کامیاب ہوسکیں۔اس باب میں تحریک کے اندر ہمیں سطحی کوششیں یا قومی شرائط پر کمپرومائز کرنے کی سطحی ذہنیت نظر آئی ہے لیکن بلوچ جدوجہد کے موجودہ مرحلے میں پارٹی اور پارٹی اتحادیوں کی توانا قوت نے کسی بھی ایسی کوشش کو ناکام بنا دی ہے۔ اسے ہم اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اس عمل میں تلخ وترش مرحلے آتے ہیں۔ نشیب و فراز آتے ہیں۔ بسااوقات غیر متوقع معاملات سامنے آتے ہیں۔ ہمیں قومی مقصد کی حصول کے لئے بعض تلخ گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ لیکن وسائل کی کمیابی، مشکلات اور صعوبتوں کے باوجود ہماری مجموعی کاوشوں کا بنیادی مقصد اداروں کا استحکام ہونا چاہئے نہ کہ دراڑ پیدا کرنے کی روش کی حوصلہ افزائی ہو۔ آج ہمیں جتنی کمزوریاں نظرآتی ہیں لیکن سرزمین کے حالات اوردشمن کی بربریت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ پارٹی کی ہمیشہ کوشش یہی رہی ہے کہ ہمارے تمام محاذوں پرکام کرنے کی صلاحیت میں وسعت پیدا ہو، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرنے کے اہل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بلوچ نسل کشی کررہا ہے۔ پاکستان ہماری سرزمین پر اپنے پنجے مزید گھاڑنے کے لئے میگا منصوبے روبہ عمل لاچکا ہے۔ ان سے بلوچ کو نقصان ہو رہا ہے۔ اس پر کسی کو شک نہیں لیکن دنیا کو بھی سوچنا چاہئے کہ سی پیک جیسے منصوبے خطے اور دنیا پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ بحر بلوچ، بلوچ سرزمین اور بلوچ کی فضائیں دنیا کی ضرورت بن چکی ہیں۔ لیکن ایسے منصوبوں کی کامیابی کی صورت میں بلوچ کا نقصان اپنی جگہ لیکن عالمی قوتیں بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکتی ہیں۔

سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے مرکزی کمیٹی اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج مرکزی کمیٹی کے اہم اجلاس میں زمینی حقائق ہم سے یہی تقاضا کرتے ہیں ہم حالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیں اورممکن العمل حکمت عملی تیار کریں کیونکہ قومی تحریک کی پیش رفت سے حالات میں بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بلوچ قومی تحریک آزادی کے عمومی صورت حال وہ نہیں جو چند سال پہلے تھی۔ ہم سب نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں کمٹمنٹ اور پختگی سے زیادہ آزادی کے خوبصورت لفظ اور خوبصورت نعروں میں ایک کشش تھا اور دشمن کی بربریت اس پیمانے پر نہیں تھی۔ اس لئے جلسے اور جلوس میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوتے لیکن کسی بھی تحریک میں یہ مرحلہ مختصر ہوتا ہے۔ جب دشمن پاکستا ن جیسا انسانی اقدار سے محروم ریاست ہوتو یہ مرحلہ مزید مختصرہوجانا یقینی تھا۔ ہمیں شروع ہی سے اندازہ تھا کہ اس جنگ میں ہمارے گھر جلیں گے، ہمارے بھائی اور بیٹے قتل ہوں گے، ہمارے بچے زندانوں کی نذرہوں گے، کیونکہ ہم اس حقیقت سے بھی آشنا تھے کہ آزادی اور انقلابی جنگوں کے رد عمل قوت زیادہ تیزی سے ابھر کرسامنے آتا ہے۔ وہ ایک ریاست ہے، اس کے پاس وسائل ہیں، افواج اور سول ادارے ہیں، عدالت اور قانون اسی کے ہیں۔ وسائل پرکنٹرول ریاست کے پاس ہوتا ہے اور وہ بین ا لاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے لہٰذا رد عملی قوت زیادہ تیزی سے تیار ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا ریاست پاکستان اور اس کی مقتدرہ قوتیں فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ بلوچ سرزمین پر اپنی قبضہ کو کسی بھی قیمت پر برقرار رکھیں اور اس کے لئے انہیں ہماری نسلیں تہہ تیغ کرنا پڑیں تو بھی پاکستان یہ کر گزرے گا۔ بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ شاید بلوچستان میں بنگلہ دیش کی نسبت مظالم آگے بڑھیں۔ آج ہماری خواتین محفوظ نہیں ہیں، دشمن انہیں زندانوں میں اذیت سے دوچار کررہا ہے۔ پاکستان اپنی دہشت گردی سے تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے آزادی کے اکثر جنگوں میں مماثلات ضرور ہوتے ہیں لیکن ہر جنگ کی طرح ہماری جنگ اورہماری سرزمین کے اپنے حقائق ہیں۔ ہم نہ چینیوں کے نقالی کرسکتے ہیں، نہ ویت نامی اور کیوبا وغیر کی۔ ان کی لٹریچر ہماری علم میں اضافہ کرسکتا ہے لیکن ہوبہو نقل ناممکن اور سیاسی عمل کے جزئیات سے لاعملی کا مظہر ہوتا ہے۔ کیونکہ ہرسماج کی طرح ہمارے سماج کی اپنی پیچیدگی، مسائل، مشکلات اورضروریا ت ہیں۔ بلوچ سماج نہ تو مکمل قبائلی ہے نہ نیم قبائلی۔ ہمارے پاس قبائلی، نیم قبائلی، جاگیردار، نیم جاگیردار، مڈل کلاس، سفید پوش، تنخواہ دار، خانہ بدوش، چھوٹے بڑے اور درمیانی درجے کے ٹھیکیدار جیسے طبقات موجود ہیں۔ ہمارے پاس کوئی نئی اوربڑی بورژوا طبقہ نہیں۔ الغرض ہماری سماج نابرابر اورمختلف طبقوں کا مجموعہ ہے۔ اس لئے ہم اپنا موازنہ چین، کیوبا، ویت نام جیسے ممالک سے نہیں کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹرمرادبلوچ نے کہا کہ انقلاب اور آزادی کی جنگوں میں دائمی لیڈرشپ نہیں ہوتا ہے۔ وہ مسلسل قتل ہو رہے ہوتے ہیں کیونکہ وہ سب سے پہلے ہدف بنتے ہیں۔ بی این ایم کے مرکزی قائدین مسلسل شہید ہو رہے ہیں۔ اسے ہم اپنی کمزوری کا نام نہیں دے سکتے بلکہ یہ انقلاب اور آزادی کے جنگوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنی کارکن، کیڈر اور لیڈرشپ کی تحفظ کو یقینی بناکر آگے چلنا چایئے۔ اس سے ہم واقعتا ہم اپنی نقصانات کم کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ بلوچ اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک قوم کی حیثیت سے قومی جنگ لڑرہے ہیں۔ اس سے قبل تاریخ میں ہمیں ایسی مثال نہیں ملتی۔ سراوان، کوہستان، جھالاوان اور مکران میں ہم نے ٹکڑیوں کی صورت میں جنگیں ضرور لڑی ہیں لیکن قومی صورت میں نہیں۔ خان محراب خان نے انگریزوں کا مقابلہ کیا لیکن لشکریوں کی تعدا د کم تھی۔ آغاعبدالکریم کے لشکرمیں جنگجوؤں کی تعداد چھ سوسے زائد نہ تھی اور ان کی مزاحمت کی عمر بھی مختصر رہی۔ وہ ایک علامتی بغاوت تھا لیکن بعد اسمبلیوں کے ممبر بن گئے۔ بابو نوروز کا جنگ بھی نیم انقلابی تھا۔ ان کے ساتھی تختہ دار چڑھائے گئے لیکن جس خان کے لئے انہوں نے مزاحمت شروع کی تھی انہوں نے مراعات لے کر مغربی پاکستان کے گورنر کے مشیر بن گئے۔ تہتر میں بغاوت اور نیم انقلابی جنگ تھا۔ بغاوت اور انقلابی جنگوں میں بنیادی فرق منصوبہ بندی کا ہوتا ہے۔ بغاوت منتشر اور انقلابی جنگ منصوبہ بند ہوتا ہے۔ انقلاب اور آزادی کی جنگ منصوبہ بندی، تدبیر، اصول اور اداروں سے لڑی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے بیشتر تحریکوں کی طرح ہماری تحریک بھی اپنے ارتقائی اور تطہیری عمل سے گزر رہا ہے۔ اس جنگ کے اوائل پہلے مرحلے میں یہی روش نظر آتا ہے۔ جب نواب اکبر خان پہاڑوں پر تھے تو دس ہزار لوگ ساتھ تھے۔ شہادت کے بعد ان کی تعداد نہایت کم ہوگئی۔ نواب خیر بخش مری کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ لیکن تطہیری عمل سے گزر کر کمیٹڈ لوگ آج جدوجہد کا حصہ ہیں اور یہ کریڈٹ پارٹی اور تنظیموں کو جاتا ہے جنہوں نے ماضی کے برعکس جدوجہد کو تسلسل دی ہے۔ آج بلوچ نیشنل موومنٹ جیسا ادارہ ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ ہماری تنظیم کامل ہے۔ ہم بھی تجربوں سے گزر رہے ہیں۔ ہاں تنقید کرنا بہت آسان ہے لیکن ذمہ داری لینا بہت ہی مشکل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ہر مرحلے خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔ خوداحتسابی، خود تنقیدی اورخود کو نفی کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی رابطہ کاری میں کمزوری کا نشاندہی کرتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ تنقید کرتے وقت ہمیں حقائق سے صرف نظر نہیں کرنا چاہئے۔

ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا پارٹی ناقدین بعض اوقات حقائق کے بجائے مفروضوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ بلوچ نیشنل موومنٹ اپنے اغراض و مقاصد کی حصول میں آج بھی کامیاب ہے۔ آپ کے ڈائسپورہ میں اکثریت بلوچ نیشنل موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سیاسی پناہ حاصل کر رہے ہیں۔ یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ دنیا نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ بلوچ نیشنل موومنٹ اپنی جدوجہد کی بدولت ریاستی مظالم کا شکار ہے۔ آج یورپی پارلیمان جیسے اداروں، امریکی وزیرخارجہ سمیت مختلف عالمی رائے عامہ پر اثر رکھنے والے شخصیات بلوچ مسئلے پر بات کرتے ہیں۔ آج دنیا میں کسی حد تک ہماری بات سنی جاتی ہے۔ یہ ہماری جدوجہد کا ثمر ضرور ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں ہم سے کیڈرٹوٹ چکاہے، کارکن اور قیادت کے درمیان رابطے کا فقدا ن ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پارٹی اورجدوجہد سے ناطے توڑنے والے جدوجہد میں آنے والے سختیوں اورمشکلات سے ناواقف تھے۔ ان میں پختگی نہ تھی۔ پارٹی آج بھی اپنے کارکن اور کیڈر سے مربوط ہے۔ پارٹی آج بھی بلوچ قوم کے اندرموجود ہے۔ آج بھی بلوچ کی ہمدردیاں دشمن کے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہیں۔ چند روز کا واقعہ ہے کہ بریگیڈئر لیول کے آرمی آفیسر آواران اور جھاؤ میں ایک سروے میں تعاون کے عوض ایوارڈ کا اعلان کرتا ہے۔ اس سروے میں لوگوں سے یہی پوچھا جاتا ہے کہ اتنی مشکلات کے باوجود لوگ کیونکر جدوجہدکاروں کو مدد فراہم کررہے ہیں۔ یہ جہدکاراس مدد کے بدلے انہیں کیا دیتے ہیں۔ آرمی آفیسر خود اقرار کرتا ہے کہ یہ حیرانی کی بات ہے کہ آواران کے دولاکھ کی آبادی میں سے ایک لاکھ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ مشکئے، جھاؤ، دشت، پروم سمیت مختلف علاقوں میں یہی صورت حال ہے لیکن لوگ پھر بھی جدوجہد سے جڑے ہیں۔ لاکھوں کی آبادی میں سے اگر چند سو لوگ دشمن کے لئے بولتے یا کام کرتے ہیں تو ہم اسے دشمن کی کامیابی نہیں سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تویہ ہماری تجزیے میں خامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہم جنگی حالات کا تجزیہ معمول کے حالات کے مطابق کررہے ہیں۔

ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ اکیسویں صدی کے آغاز پر دشمن نے بلوچ سرزمین کو ہڑپنے کے لئے دوررس اثرات کے حامل منصوبے شروع کئے۔ چین جیسے جدید سامراجی قوت کو شریکِ جرم میں بنایا جن کا بنیادی مقصد قبضے کو مستحکم اور بلوچ قومی شناخت اور وجود کو مٹانا تھا۔ یہ بلوچ مزاحمت کی قوت ہے کہ سی پیک جیسے منصوبے خطے میں طاقت کی توازن میں بگاڑ کا بنیادی سبب ضرور بن چکا ہے لیکن قومی تحریک نے پاکستان اورچین کے عزائم خاک میں ملا دیئے ہیں۔ آج سی پیک نے دنیا کو دو حصوں کو بانٹ دیا ہے۔ اس میں ایک حصے کی قیادت چین اور ایک حصے کی قیادت امریکہ کے پاس ہے۔ اس کا مرکز بلوچستان ہے۔ آج چین جیونی میں نیول بیس تعمیر کرنے کے بارے میں بات کررہا ہے۔ صرف گوادرمیں چینیوں کی حفاظت کے لئے ایک بریگیڈ سے زیادہ فوج تعینات ہے۔ لیکن اس کے باوجود کوئی سرمایہ کاری نہیں ہورہا ہے۔ جن سرمایہ کاروں نے 2004 کو زمین خریدی تھی وہ آج پشیمان اور مزید سرمایہ لگانے سے خوف زدہ ہیں۔ صرف چند چینیوں نے سرمایہ ضرور لگایا ہے لیکن کوئی یورپی، امریکی، جاپانی یا دیگر ممالک کے سرمایہ کار یہاں آنے سے گریزاں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ سی پیک کے تمام منصوبے ہوا میں معلق کیوں ہوچکے ہیں؟ کیا یہ سب کسی بیرونی دباؤ کے تحت ہورہا ہے؟ نہیں یہ بلوچ جدوجہد کی کامیابی ہے جس نے سی پیک کو ناکام بنادی ہے۔ سرمایہ کار کی مثال چڑیا کی ہوتی ہے جو جنگی صورت حال میں کسی بھی عنوان پر سرمایہ کاری کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کی قتل، سینکڑوں گاؤں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنے کے باوجود پاکستان اور چین بلوچ سرزمین پر اپنے منصوبے روبہ عمل نہیں لاسکے ہیں۔ یہ بلوچ جدوجہد کی کامیابی ہے۔

انہوں نے کہا جب ہم حالات کے مطابق حکمت عملیوں میں تبدیلی کا قائل ہیں تو پارٹی اداروں کی ہیئت و ساخت کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چایئے کہ حالات میں یکسر تبدیلی اوردشمن کی جبر کا مقابلہ کس طرح کرنا چایئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری لائن آف ایکشن یہی ہو کہ ہم اپنے ساتھیوں کی اجتماعات کم سے کم کریں۔ ہماری سرزمین وسیع ہے۔ بہتر حکمت عملی سے ہم اپنے کارکن اور کیڈرکو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ لوگوں سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ ہم کوشش کریں کہ اپنے اداروں کی حجم میں تخفیف کریں تاکہ آئندہ ہماری نشستوں میں آسانی ہو اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں رازداری سے کام کرنا چاہئے، جہاں اورجس صورت حال میں کارکن کام کرتے ہیں یا اداروں کی حجم یا افراد کی تعداد کچھ بھی ہو لیکن اسے رازداری ہی بچا سکتا ہے۔ ہماری نشست و برخاست اورسرگرمیاں ہر صورت میں رازداری میں ہوں۔

ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ پارٹی افرادی قوت کی کثرت سے نہیں مربوط پختہ پالیسیوں اور رابطہ کاری سے قومی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ایک انقلابی پارٹی کے لئے خطہ اورعالمی حالات کا ادراک، معاملات کو اپنی نظر سے دیکھنے اور رازداری مقدم ہونا چاہئے۔ انقلاب و آزادی کے آرکیٹکٹ کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہمیں ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ بڑی طاقت ہمیشہ پراکسی بناتے ہیں۔ ہرجنگ زدہ خطوں میں انہیں پراکسیوں کی تلاش ہوتی ہے۔ لیکن خودداری، اپنے اور اپنے دشمن کی طاقت کا ادراک، حالات کی سوجھ بوجھ اورقومی قوت پر انحصار ہمیں کسی دوسرے تیسرے طاقت کی پراکسی بننے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ہمیں متحارب قوتوں اور عالمی مفادات کے درمیان متوازن اور جامع پالیسی کی ضرور ت ہے۔ جب ہم نے متوازن پالیسی اور حکمت عملی کے درمیان توازن کھو دیا تو ہماری جدوجہد کی بقا داؤ پر لگ جائے گا۔

مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے کہا تحریک کے نئے ابھار میں بلوچ سیاسی قیادت کی حکمت عملی ہمیں کامیاب نظر آتا ہے۔ موبلائزیشن کے عمل اور تحریک کی شدت نے دشمن کے افواج اور دیگر عسکری اداروں کو ان کی معمول کے حالات کی مستقر، کیمپ یا کنٹونمنٹ سے نکال کر بلوچستان کے کونے کونے میں پھیلا دیا ہے۔ یہ کام دشمن نے خوشی سے نہیں بلکہ بلوچ جد وجہد کی شدت سے مجبور ہو کر کیا ہے۔

دل مراد بلوچ نے دشمن کی بربریت پر بات کرتے ہوئے کہا دشمن کی بربریت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے مرحلے میں سیاسی کارکن اور جہد کار دشمن کے نشانے پر تھے۔ پھرسیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور کیڈر کو اٹھاکر لاپتہ کرتا، یا قتل کرتا تھا۔ اس کے بعد اس کا خاندان ہدف تھا یا صرف اسی کا گھر جلایا جاتا تھا۔ لیکن بربریت کے دوسرے مرحلے میں دشمن نے جارحیت کی نئی حدیں پارکرلیں اور بلوچ قوم کو ”اجتماعی سزا“ کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس میں دشمن نے جہدکار اور عام لوگوں کی تمیز وفرق مٹادی ہے۔ اجتماعی سزا کا مطلب ہی یہی ہے کہ بلوچ قوم آج بھی جدوجہد کے ساتھ کھڑا ہے۔ بلوچ قوم آج بھی تحریک میں منظم کردار ادا کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن بلوچ قوم کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنا رہا ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا جب ہم ماضی کی بات کرتے ہیں کہ ماضی میں ادارہ نہ تھے۔ کمزورویاں، خامیاں تھیں۔ بعض اوقات ہم حد سے زیادہ ناقد بن جاتے ہیں تو میں اسے مناسب نہیں سمجھتا ہوں بلکہ ہمیں فخر کے ساتھ ماضی کیکمزوریوں، خامیوں کو قبول کرکے آگے بڑھنا چاہئے۔ کیونکہ ماضی ہمارا ورثہ ہے۔ اگر اس مرحلے پر ہمارا رویہ بھی ماضی کے پیش روؤں کے مماثل رہا یا خدانخواستہ ہم اسی طریقہ کار پر چلے تو آئندہ نسلوں کے الفاظ ہمارے لئے مختلف نہیں ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں آج صورت حال مختلف ہے۔ آج بلوچ قوم کے پا س بلوچ نیشنل موومنٹ جیسا ادارہ موجودہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچ قومی تحریک کا سب سے بڑا سیاسی ادارہ ہے۔ اس کا تجزیہ ہم یوں کرسکتے ہیں کہ جب بی این ایف بنا تو اس میں نو پارٹی اور تنظیم تھے۔ مسلح تنظیمیں اس کے علاوہ تھیں۔ اس کے بعد بھی پارٹی بن گئے لیکن یہ سب آج کہاں ہیں؟ ایک دو کے نام شاید باقی ہیں لیکن دوسروں کا وجود بھی نہ رہا۔ بلوچ نیشنل موومنٹ آج بھی موجود ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ اپنے اداروں، اپنے لیڈرشپ، اپنے کارکنوں، اپنے کیڈر اور دوزواہ کے ساتھ بلوچستان اور بلوچستان سے باہر دنیا کے بعض ممالک میں موجود اور سرگرم عمل ہے۔ یہ حقیقت ہمیں ماضی سے ممتاز ومنفرد بناتا ہے۔ یہ بی این ایم کی کامیابی ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا بلوچ نیشنل موومنٹ کے کردار کے لئے ہم ایک اور تجزیہ بھی کرسکتے ہیں۔ موجودہ تحریک میں دو بیانیہ سامنے آئے۔ پہلا بلوچ نیشنل موومنٹ اوربلوچ نیشنل موومنٹ کے اتحادیوں کا تھا کہ جدوجہد کی کامیابی کے لئے پارٹی اور پارٹی ادارے لازم وملزوم ہیں تو دوسرا بیانیہ یہ تھا کہ پارٹی کا مطلب گروپ بندی ہے۔ اس سے دھڑا بندی وجود میں آتا ہے۔ لہٰذا تحریک یک قطبی یا یک مرکزیت کا حامل ہو اور جناب سردار صاحب کے ہاتھ میں اس کی باگ ڈور ہو باقی سب ان کے پیروکار بن جائیں لیکن بلوچ نیشنل موومنٹ اور اس کے اتحادیوں نے اس بیانئے کی مزاحمت کی۔ یہ ہماری کامیابی ہے کہ اس بیانئے کے خالق بھی اس امر مجبور ہوئے اور انہوں نے اپنی بیانیہ تبدیل کرکے جدوجہد میں پارٹی کی اہمیت تسلیم کی۔ ایک سیاسی سرکل کی داغ بیل ڈالی۔ یہ ہماری بیانئے کی کامیابی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج سرزمین اور سرزمین سے باہر سب سے زیادہ افرادی قوت، سب سے زیادہ تعلیم یافتہ کیڈر، سب سے زیادہ دوزاہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے پاس ہے۔ ضرورت بہترین مینجمنٹ کی ہے۔ لیکن وسائل اور افرادی قوت کے ساتھ ساتھ مثبت رویے ہی بہترین ٹیم ورک کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اس پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

خطے کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے دل مراد بلوچ نے کہا کہ یہ ہماری رویوں کی ناپختگی ہے یا کچھ لوگ دانستہ ایسا کرتے ہیں کہ ہمیں خطے میں متحارب قوتوں پر کھلے عام پالیسی دینے کا شوق ہوتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ بیس سالہ جنگ میں خطے کی مضبوط ترین اسٹیک ہولڈر طالبان نے کبھی بلوچ کے مسئلے پر اعلانیہ اپنا موقف سامنے لایا یا کبھی کشمیریوں نے بلوچ مسئلے پر لب کشائی کی لیکن ہم سے ہروقت یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ ہم اعلانیہ اپنی موقف سامنے لائیں۔ میری گزارش ہے کہ ہمیں اپنی سیاسی قیادت پر اعتماد ہونا چاہئے۔ ہمیں پارٹی پر بھروسہ ہونا چاہئے کہ وہ کس طاقت، فریق، دھڑے سے کس سطح اور کس پیمانے کے تعلقات استوار کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بظاہر امریکہ خطے سے جارہا ہے۔ حالات تیزی سے تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں لیکن میں سمجھتاہوں کہ امریکہ نے اس خطے میں دوررس نتائج کے حامل حکمت تیارکی ہے اور امریکہ کی بظاہر انخلاء اس کی خطے میں مضبوط موجودگی کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ سووویت یونین کے خلاف جنگ کے بعد کی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ آج بھی انخلاء کے بعد خطے میں تبدیلی کے خواہاں قوت بساط پر اپنی چال چل سکتے ہیں۔ ممکنہ صورت حال کا تجزیہ اور پیشگی تیاری ہماری قیادت کے ویژن پر انحصار کرتا ہے۔

مرکزی فنانس سیکریٹری ناصربلوچ نے کہا پاکستانی قبضے کے بعد بلوچ جدوجہد کے تمام مرحلوں میں بنیادی کمزوری یہ تھا کہ ایک وہ ادارتی شکل نہیں اختیار کرسکے اور دوئم یہ کہ چند ایک مخصوص علاقوں تک محدود رہے۔ نواب نوروز خان اور آغا عبدالکریم جیسے پیش روؤں کے وقت میں حالات اور ان کی سکت و قوت شاید یہی تھی۔ وہ جدوجہد کو ہمہ گیر بنیادوں پر منظم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ماضی کی کمزوری، تجربات اور شکست وریخت سے سبق حاصل کرکے دوہزار کے بعد شروع ہونے والی جدوجہد ہمیں ادارتی صورت میں نظر آتا ہے۔ ماضی کے تجربا ت کی روشنی میں شروع ہونے والی جدوجہد نشیب و فراز کے باوجود ہم تسلسل سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ جہاں تک موبلائزیشن کے لئے بی این ایم کے کردار پر سوال اٹھانے والے زمینی حقائق نظر انداز کررہے ہیں آج بھی موبلائزیشن کا عمل مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ ابتدائی دنوں کی طرح کام کے خواہاں لوگوں کو نہ تو ریاستی بربریت کا اندازہ ہے اور نہ زمین حقائق سے تعلق۔ محض خواہش کے گھوڑے دوڑانے سے سیاسی عمل کامیاب نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے لئے مستقل مزاجی کے ساتھ کام کی ضرورت ہے۔ حالات کے مطابق ہمیں نظرثانی شدہ حکمت عملیوں پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ رابطوں کے شکوہ کناں یہ تک نہیں سمجھتے کہ آج ہمارے اسیر سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد غیر محفوظ رابطہ کاری کے ذرائع استعمال کرنے کی وجہ دشمن کے زندانوں میں قید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ کارکن گھر گھر جاکر لوگوں تک پارٹی پیغام پہنچاتے تھے۔ ہر گاؤں میں کارنر میٹنگ ہقتے تھے۔ جلسے اور جلوس ہوتے تھے۔ قومی جدوجہد اور موبلائزیشن کے لئے بی این ایم اپنی قیادت کی قربانی دے چکا ہے۔ ہماری مرکزی رہنما اور کارکن زندانوں میں قید ہیں۔ آج بھی بلوچ کا قومی مزاج سیاسی ہے۔ آج دشمن کے ہزارہا بربریت اورہزارہا حربوں کے باوجود لوگ جدوجہد سے جڑے ہوئے ہیں اور اسی جڑت کی قیمت اجتماعی سزا کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔ یہ ہماری دشمن کی ناکامی کی واضح ثبوت ہے۔ آج سرزمین ہماری سیاسی کارکنوں اور کیڈر کے لئے نہایت تنگ کی جاچکی ہے۔ لہٰذا ہمیں زمینی حالات کومدنظر رکھ کر آگے کی ضرورت ہے۔

ڈپٹی سیکریٹری استاد بابل لطیف نے کہا بلوچ نیشنل موومنٹ اپنی قیادت اور کارکنوں کے ساتھ آج کامیابی سے تحریک میں اپنا حصہ ادا کررہا ہے۔ ہماری بلوچ سرزمین اور خطے کی سیاست پر گہری نظر ہے لیکن ہمارے لئے ہماری قومی مفادات مقدم ہیں۔ بلوچ مزاحمت میں موجود پوزیشن پارٹی کے خلاف چلنے والے طوفانی پروپیگنڈہ کا مقاصد میں اہم آزاد بلوچستان کے لئے بی این ایم کی منشور اور عوامی حکومت کے پروگرام سے خائف لوگ تھے۔ لیکن بی این ایم اور بی این ایم کی قیادت نے ایسے تمام حربے ناکام بنا دیئے۔

مرکزی کمیٹی اجلاس میں تمام اراکین نے بحث و مباحثے میں حصہ لیا، اورمختلف فیصلے کئے گئے جنہیں سرکولر کے ذریعے پارٹی ذیلی اداروں کو بھیجا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share this Article
Follow:
The Information and Cultural Secretary of BNM is the party's spokesperson and is responsible for the party's publicity and issuing of statements.
Leave a comment